کورونا وائرس کے نئے ویرینٹ ’’اومی کرون‘‘ نے اب دنیا بھر میں پنجے گاڑھنے شروع کر دئیے ہیں ۔اومی کرون کا پہلا کیس 24 نومبر کو جنوبی افریقہ میں سامنے آیا اور ڈبلیو ایچ او نے اپنے " Technical Advisory Group on Virus Evolution " کی سفارشات پر اس قسم کو اومی کرون کا نام دیا اور پوری دنیا کو خبردار بھی کر دیا ہے۔اس میں کم وبیش 50 میوٹیشنز پائی جاتی ہیں۔ اس وائرس کے جنیاتی تغیر کی وجہ سے یہ پانچویں لہر گزشتہ لہروں سے زیادہ تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔تادم تحریر وائرس کی یہ قسم 40 سے زائدممالک میں اپنا دائرہ کار بڑھا چکی ہیں جن میں امریکا ، انگلینڈ ،انڈیا اورسعودی عرب بھی شامل ہیں۔اب پاکستان میں بھی تین مشتبہ کیسز سامنے آئے ہیں جن کے نمونے لیبارٹری بھجوا دئیے گئے ہیں۔دنیا بھر کے طبی محققین اب اس وائرس کو سٹڈی کرنے میں مصروف ہیں۔کئی ممالک نے سفری پابندیوں کا نفاذ کر دیا ہے ۔ این سی او سی کے مطابق پاکستان میں اگلے 2 سے 3 ہفتے اہم ہیں اور صوبائی حکومتوں کو کہا ہے کہ ویکسنیشن کو یقینی بنایا جائے۔ٹیسٹ اینڈ ٹریس کے طریقۂ کار کو بھی بڑھنا چاہئے اور عوام سے بھی اپیل ہے کہ وہ جلداز جلد اپنے ویکسنیشن کے عمل کو مکمل کریں۔ اور پھر سے احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے ۔
پاکستان میں بوسٹر ڈوز کے متعلق بھی واضع پالیسی بننے جارہی ہے۔ کم قوت مدافعت والے مریض زیادہ احتیاط کریں۔ نئی ویکسین پر مختلف ممالک میں کام شروع ہو چکا ہے اور 15 سے 20 یوم میں مارکیٹ میں بھی آجانے کا امکان ہے۔یاد رہے کہ 31 دسمبر2019ء کوچین کے شہر ووہان کی سی فوڈ مارکیٹ سے جنم لینے والی یہ بیماری اس وقت محض معمولی زنزلہ و زکام تصور کی جارہی تھی۔ مریض نمونیا کی شکایت کے ساتھ آرہے تھے اور پھر آہستہ آہستہ اس وائرس کی تیزوتند آندھی نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لایا۔ تقریباً پوری دنیا مکمل لاک ڈون یا نیم لاک ڈون کا شکار رہی ہے۔
او می کرون ویرینٹ آف کنسرن
Dec 14, 2021