سیالکوٹ کے حلقہ میں ہونے والے ضمنی الیکشن مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے اعصاب پر ایک خوف بن کر سوار تھا۔ اس الیکشن میں تحریک انصاف کے امیدوار نے مسلم لیگ( ن) کے امیدوار کوشکست دے دی تھی۔ یہ سیٹ مسلم لیگ( ن) کی تھی جو خوش اختر سبحانی کے انتقال پر خالی ہوئی تھی۔ تحریک انصاف کے احسن سلیم بریار نے الیکشن میں یہ سیٹ جیت لی۔ دو تین ماہ قبل پرویز ملک کے انتقال پر لاہور کے حلقہ 133کی نشست خالی ہوئی تو مسلم لیگ کی قیادت ایک بار پھر خوفزدہ نظر آئی۔ اس کا اظہار اس کی طرف سے پرویز ملک کی اہلیہ کو ٹکٹ دینے سے ہوتاہے۔ وہ خصوصی نشست پر ایم این اے تھیں اور پرویز ملک کی وفات کے بعد وہ عدت میں تھیں۔ شائستہ پرویز ملک کا اس حلقے سے تعلق نہیں ہے۔ حلقہ این اے133میں شکست کے خطرے کے پیش نظر شائستہ پرویز ملک کو ٹکٹ دیا گیا۔ مقابلے میں پی ٹی آئی کے جمشید اقبال چیمہ تھے وہ اپنی حماقت یا اپنی لیڈر شپ کی سازش کا شکار ہو کر انتخابی دوڑ سے باہر ہو گئے (عمومی خیال یہ ہے پی ٹی آئی پنجاب کے صدر اعجاز چوہدری اپنے بیٹے کے لیے اس سیٹ کے خواہش مند تھے اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ سیٹ کسی اور کو ملے اس لیے ٹیکنیکل بنیادوں پرجمشید اقبال چیمہ کواس گیم سے آئوٹ کر دیا گیایوں مسلم لیگ ن کو واک آوور مل گیا )تو شائستہ پرویز ملک کے لیے انتخابی میدان صاف ہو گیا جس پر ن لیگ نے سکھ کا سانس لیا۔ اب مقابلے میں کوئی قابل ذکر پارٹی نہیں تھی۔ پیپلزپارٹی کے اسلم گل کو ٹکٹ دیا گیا تھا(یاد رہے اسلم گل بھٹو شہید کے نظریاتی جیالے ہیںاور لاہور کی سیاست میں جہانگیر بدر کی قیادت میں ان کے کردار اور آزمائش کو بھلایا نہیں جا سکتا۔ اسلم گل کا شمار میرے ذاتی دوستوں میں ہوتا ہے ۔) پی پی پی نے پی ٹی آئی کے میدان سے نکلنے پر اپنے گھوڑے سرپٹ دوڑا دیئے۔ (ن) لیگ کے لیے تھوڑا ساخدشتہ پیدا ہوا تو نوٹوں کی بوریوں کے منہ کھول دیئے گئے۔ پی پی والے پہلے ہی ایسا کچھ کر رہے تھے۔
پی پی پی کے اس حلقے میں پانچ ساڑھے پانچ ہزار ووٹ تھے جو اس کو مل گئے مگر مجموعی فگر 32ہزار سامنے آئی۔ اس پر پی پی کی قیادت بے وجہ آپے سے باہر ہو رہی ہے۔ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو جیسے صف اول کے لیڈر اسے پیپلزپارٹی کا نیا جنم قرار دے رہے ہیں۔ 32ہزار ووٹ حاصل کرنے پر اس قدر خوش ہوئے کہ باقاعدہ جشن منایا گیا۔ شکست پر جشن پہلی بار دیکھا گیا اور سنا گیا۔ پی پی کی جو اوقات تھی اسے اسی کے مطابق ووٹ ملے۔ اس حلقے میں طاہر القادری کے 25ہزار ووٹ ہیں۔ علی نوازگنڈا پور پی ٹی آئی کے انتخابی دوڑ سے باہر ہونے کے بعد پیپلزپارٹی کے امیدوار کی مہم چلاتے رہے۔ان کو پیپلزپارٹی سے تو زیادہ الفت نہیں ہے مگر طاہر القادری کے لوگوں کو (ن) لیگ سے ضرورعداوت اور مخاصمت ہے۔ 25ہزار میں پانچ ہزار پی پی کے ووٹ جمع کر لیں تو تیس ہزار ہو گئے۔ پی ٹی آئی نے اپنے ووٹر کو لاتعلق رہنے کو کہا تھا۔ پھر بھی ڈیڑھ دوہزار ن لیگ کے خلاف ووٹ دینے نکل آئے۔پیپلزپارٹی اپنی مقبولیت کی جس پستی میں تھی آنا بھی اسی میں ہے۔ اس پارٹی کی لیڈرشپ نے حلقہ 133میں پانی کی طرح پیسہ بہایا مگر کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ ان کو ڈینگیں مارنے کا موقع طاہر القادری کے لوگوں کی سپورٹ کے باعث ملا۔ پی پی پی نے جتنا پیسہ انتخابی مہم میں لگایا اس سے کہیں زیادہ میڈیا میں اپنے سپورٹر کی خدمت کے لیے دیا جو یہ ثابت کرنے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں کہ پی پی پنجاب میں ابھر کر سامنے آ رہی ہے۔ اسے کوئی تسلیم کرنے پر تیار نہیں البتہ (ن) لیگ ضرور خوفزدہ ہے۔قارئین !ایک غیر جانبدار تجزیہ نگار کی حیثیت سے میں چوہدری اسلم گل کی صلاحیت اور قابلیت پر کوئی قدغن نہیں لگانا چاہتا۔ انہوں نے اپنی قیادت کے کہنے پر پَرفارم کیا اور دوسری طرف ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے جانثاروں کے پاس ایک موقع تھا کہ ان کے پچیس ہزار ووٹر اس حلقے میں مسلم لیگ نے کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس نکال سکیں۔آج اس ضمنی الیکشن کو گزرے ایک ہفتہ مکمل ہو چکا ہے اور پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت نے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ان صحافیوں کو جنہیں مال کمانے کی عادت ہے ان پر یہ پیسہ جی بھر کرلُٹایا۔سابق صدر آصف علی زرداری نے کچھ دن پہلے اس حلقے کے نتائج آنے کے بعد برملا کہا تھا کہ اگر ہم ووٹرز کو باہر نکالنے میں کامیاب ہو جاتے تو ہم پچاس ہزار ووٹ حاصل کر سکتے تھے۔یعنی زرداری صاحب نے اپنی دولت کے بل بوتے پر پچاس ہزار ووٹرز کا انتظام کر رکھا تھا۔
میں ایک سیاسی تجزیہ نگار کی حیثیت سے بڑے وثوق سے یہ بات کہتا ہوں کہ پیپلزپارٹی میں ایسی کونسی دودھ اور شہد کی نہریں کھدوا دی تھیں جو اس کے ووٹ 5ہزار سے 32ہزار تک پہنچ گئے۔بقول شا عر ؎
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ! یہ خیال اچھا ہے
بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ
Dec 14, 2021