کراچی (نوائے وقت رپورٹ) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ سندھ بلدیاتی ایکٹ کو کالا قانون کہنے والے شرمندہ ہوں گے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی پی چیئر مین کا کہنا تھا کہ عوام نے باقی پارٹیوں کوبھگتا اب پیپلز پارٹی کو چانس دیں گے۔ لوکل باڈی الیکشن میں پیپلز پارٹی کی مقبولیت کو ثابت کریں گے۔ مثبت تنقید کرنا جائز لیکن جھوٹ بولنا جائزنہیں، سندھ بلدیاتی ایکٹ میں سب سے زیادہ سہولتیں دے رہا ہے۔ پی ٹی آئی اپنی مرضی کا نظام مسلط کرنا چاہتی ہے۔ کراچی میں ہم لوکل گورنمنٹ کے نمائندوں کو اختیارات دے رہے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں نے بلدیاتی قانون پر تنقید کی۔ مثبت تنقید کرنا جائز ہے لیکن حقائق سے ہٹ کر نہیں، ہمیں کالا قانون کہنے والے لاہور میں مرضی کا قانون لارہے ہیں۔ پنجاب، خیبرپختونخوا، اسلام آباد کے بلدیاتی قانون سے سندھ کا بلدیاتی قانون بہتر ہے۔ سندھ بلدیاتی ایکٹ کوکالا قانون کہنے والوں کا منہ کالا ہوگا۔ پاکستان مردہ باد کہنے والے ہمیں لیکچر دینے والے کون ہوتے ہیں۔ ہم پاکستان زندہ باد کہنے والے لوگ ہیں۔ اپوزیشن کو شکست نظرآرہی ہے خوفزدہ ہے۔ ان کی چیخیں نکلیں گی۔ بلاول نے مزید کہا کہ جب سے پیدا ہوا ہوں،کراچی میں دہشت گرد مسلط رہے ہیں۔ پاکستان مخالف نعرہ لگانے والوں کی ہمیں لیکچر دینے کی ہمت کیسے ہوئی؟ لسانی سیاست کی توان کے ساتھ وہ کریں گے کہ وہ یاد رکھیں گے۔ پیپلز پارٹی کی مقبولیت بڑھ رہی ہے، لاہورکے عوام بھی ہماری طرف دیکھ رہی ہے۔ 1970ء سے پیپلز پارٹی گھر بنا رہی تھی، یہ لوگ تو غریبوں کے سرسے چھت چھین رہے ہیں۔ وفاقی حکومت، خیبرپختونخوا، پنجاب کو چیلنج کرتا ہوں ایک سرکاری ہسپتال دکھا دیں جو این آئی سی وی ڈی ہسپتال کا مقابلہ کر سکے۔ جانتے ہیں ابھی بہت کام کرنا باقی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان مخالف نعرے لگانے والے پیپلز پارٹی کو لیکچر دینے والے کون ہوتے ہیں؟ بلاول نے دعویٰ کیا کہ اگلے الیکشن میں نہ بلا چلے گا اور نہ پتنگ صرف تیر چلے گا۔ باقی ایم کیو ام کی سیاست ختم‘ اب بھی اس کوقبول نہیں کرتے۔ پیپلز پارٹی بس نہیں دے سکی تو کوئی اور جماعت بھی نہیں دے سکی۔ جنوری تک انٹر سٹی بس سروس شروع ہو جائے گی۔ وفاق میں آ کر کراچی سرکلر ریلوے شروع کریں گے۔ اورنج لائن جلد شروع ہو جائے گی۔علاوہ ازیں سوال کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات بڑا سوالیہ نشان ہے، مذاکرات کا از خود فیصلہ کیا گیا، دہشتگرد جماعت سے مذاکرات سے متعلق حکومت غلطی نہ کرے، پارلیمان میں مشاورت کرے، دہشت گردوں کے لیے پاکستان میں کوئی سپیس نہیں ہونی چاہیے، ریاست کواپنی رٹ منوانی چاہیے۔ اگر رٹ نہیں ہوگی تو کہیں ہمارا حال بھی خدانخواستہ افغانستان جیسا نہ ہو جائے۔ دہشت گردی میں ملوث ان کے ساتھ بات چیت نہ کی جائے، دہشت گردی میں ملوث لوگوں کو معاف نہیں کریں گے۔