اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی عدالت میں زیرسماعت توشہ خانہ کیس میں الیکشن کمشن کے فیصلے اور مزید کارروائی کیخلاف عمران کی درخواست میں سابق وزیر اعظم کے وکیل کی جانب سے دلائل جاری رہے۔ محسن شاہ نواز رانجھا کے وکیل نے دلائل کیلئے ایک ہفتے کی مہلت مانگ لی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے علی ظفر صاحب دلائل شروع کر لیں۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ پارٹی کی صدارت سے ہٹانے کی کارروائی شروع کی ہے، سیشن کورٹ میں عمران خان کیخلاف اندراج مقدمہ کی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ ہوا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دو سے تین ہفتوں میں سن کر فیصلہ کردیں گے۔ دوران سماعت فیصل واوڈا کیس کے سپریم کورٹ کے فیصلے کا ذکر کیاگیا۔ عمران خان کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ سپیکر قومی اسمبلی نے 2018، 19 کے گوشواروں پر فیصلہ کرتے ہوئے عمران کو 62 ون ایف کے تحت نااہل قرار دیتے ہوئے اپنی رائے کے ساتھ معاملہ الیکشن کمشن کو بھیج دیا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ جب معاملہ الیکشن کمشن کو چلا گیا تو الیکشن کمشن نے دونوں فریقین کو سنا ہوگا، کیا الیکشن کمیشن نے مزید شواہد مانگے یا صرف سپیکر کے ریفرنس پر ہی انحصار کیا؟۔ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے صرف سپیکر کے بھیجے ہوئے ریفرنس اور دستاویزات پر ہی انحصار کیا، سپیکر پر بار تھا کہ وہ یہ ثابت کرتے کہ عمران خان 62 ون ایف کے تحت نااہل ہوتے ہیں، سپیکر کو چاہیے تھا کہ ریفرنس کے ساتھ شواہد بھی الیکشن کمیشن کو بھیجتے، سپیکر نے ایسا نہیں کیا، صرف درخواست پر ہی انحصار کیا، کوئی شواہد نہیں بھیجے، الیکشن کمیشن نے اس کیس میں فیصل واوڈا کیس کا سہارا لیا اور ڈیکلیریشن دی، کیونکہ الیکشن کمشن فیصل واوڈا کیس میں بھی دیکلیریشن دے چکا ہے،62 ون ایف کے تحت ڈیکلیریشن نہ ہونے کے سبب سپیکر قومی اسمبلی کا فیصلہ غیر قانونی، غیر آئینی تھا، الیکشن کمشن کے پاس کسی ممبر کو نااہل کرنے کا اختیار نہیں، سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں کہ الیکشن کمیشن کورٹ آف لاء نہیں ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 63 ایف کے تحت نااہلی سے تو صادق اور امین والی بات نکل گئی؟، جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ الیکشن کمیشن نے فیصل واوڈا کیس کو مدنظر رکھتے ہوئے میرے موکل کے خلاف فیصلہ دیا، عدالت نے سماعت 20 دسمبر تک ملتوی کر دی۔
توشہ خانہ کیس
عمران کے وکیل کے دلائل جاری‘ لیگی رہنما محسن رانجھا کے کونسل نے ایک ہفتے کی مہلت مانگ لی‘ 2سے 3 ہفتے میں سن کر فیصلہ کریں گے‘ جسٹس عامر
Dec 14, 2022