ملتان ٹیسٹ جیت کر انگلینڈ نے سیریز اپنے نام کر لی
آخر کب تک ہم صرف بائولروں پر تکیہ کیے رہیں گے۔ یہ بلے باز کس مرض کی دوا ہوتے ہیں۔ یہ کیوں نہیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے۔ یہ عجب پریشانی کی بات ہے کہ اکثر اہم میچوں میں بلے باز، پتنگ باز کی طرح بوکاٹا ہو جاتے ہیں۔ ملتان ٹیسٹ میں بائولر ابرار احمد نے ریکارڈ بنایا مگر وہ بھی رائیگاں گیا۔ خدا جانے کھلاڑیوں کو کیا ہو جاتا ہے وہ کیوں ہمت ہار جاتے ہیں۔ شاید وہ یہ سوچ کر میدان میں اترتے ہیں کہ چلو میری خیر ہے۔ دوسرے اچھے بلے باز بھی موجود ہیں وہ بڑا سکور کر لیں گے میچ کو سنبھال لیں گے۔ یوں
میری رفتار سے بھاگے سے بیاباں مجھ سے
ہر قدم دوری منزل ہے نمایاں مجھ سے
ہائو ہو تو بہت ہوتا ہے۔ مگر اس تیز رفتاری اور چھکے ، چوکے مار کر ہیرو بننے کے چکر میں کھلاڑی زیرو پر ٹی وی سکرینوں پر بطخ بن کر آنسو بہاتے انڈہ دے کر باہر جاتے نظر آتے ہیں۔ یوں اب دورہ پاکستان میں دو میچ جیت کر انگلینڈ نے یہ سیریز اپنے نام کر لی ہے۔ پہلے اسلام آباد اور اب ملتان سٹیڈیم میں ہمارے کھلاڑیوں کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ اب معلوم نہیں اسے قسمت کا لکھا کہا جائے گا یا مردہ پچوں کی کرامت یا پھر انگلش کھلاڑیوں کی شاندار کارکردگی۔ وجہ جو بھی ہو ابھی سیریز کا آخری میچ لاہور میں ہونا باقی ہے۔ خدا کرے اور کھلاڑی بھی محنت و ہمت سے کام لیں تو یہ میچ وہ جیت کر کم از کم وائٹ واش کی شرمندگی سے بچ سکتے ہیں۔ تین میں سے ایک ہی سہی چلیں کچھ نہ کچھ تو اپنے ہاتھ آئے اور ہم فخر سے کہہ سکیں کہ ہم نے بھی ایک 5 روزہ میچ جیتا ہے۔
٭٭٭٭٭
تحفظ دیا جائے مشکوک افراد تعاقب کرتے ہیں، مراد سعید کا صدر کو خط
عجب بات ہے جو خط سوات یا پشاور خیبر پی کے پولیس کو لکھنا تھا وہ خط یا درخواست مراد سعید اسلام آباد میں صدر مملکت کو لکھ رہے ہیں جسے پہلے ہی پی ٹی آئی کی ساری قیادت 22 کلومیٹر کی سلطنت کہتے ہیں۔ اب یہ مراد سعید جانتے ہوں گے کہ وہ کون لوگ ہیں جن سے وہ خوفزدہ ہیں اور صدر سے تحفظ طلب کر رہے ہیں۔ مگر دوسری سانس میں کہتے ہیں میں کسی سے نہیں ڈرتا تو پھر یہ دھمکیوں اور تعاقب سے ڈر کر سلامتی اور تحفظ طلب کرنا چہ معنی دارد۔ بے شک شہریوں کو حق ہے کہ وہ ریاست سے مدد طلب کریں۔ مگر براہ راست صدر کی بجائے پہلے اپنے صوبے میں اپنے شہر میں جہاں ان کی حکومت اپنی پولیس اپنی ہے ان رابطہ کریں وہاں بہترین سکیورٹی مل سکتی ہے۔ صدر مملکت تو اپنا سکیورٹی سٹاف پشاور یا سوات بھیج کر مراد سعید کی حفاظت حقیقی بنانے سے رہے۔ وہ بھی آئی جی خیبر پی کے کو یا وزیر اعلیٰ کو ہی کہیں گے کہ حفاظت یقینی بنائیں۔ اب وہ فوج کو تو ایسا کرنے کا نہیں کہہ سکتے۔ مگر شاید مراد سعید یہی چاہتے ہیں کیونکہ ان کے قائد بھی ہر تقریر پر دلپذیر ہیں آج کل اداروں سے اپیلیں کرتے پھر رہے ہیں کہ وہ آ کر ملک کو بچائیں۔ اب یہ تو سب کو معلوم ہے اداروں سے مراد کیا ہے اور وہ کون ہیں۔ مراد سعید کے ساتھ ان کی صوبائی پولیس کے فراہم کردہ سکیورٹی گارڈ بھی ہوں گے وہ مالدار آدمی ہیں نجی گارڈ بھی رکھے ہوں گے، پارٹی ٹائیگرز بھی بے شمار ان کے اردگرد
جان تم پر نثار کرتا ہوں
میں نہیں جانتا وفا کیا ہے
کہتے ہوئے ان کو دستیاب ہیں تو انہیں دل زیادہ چھوٹا نہیں کرنا چاہیے۔ پھر بھی وفاقی حکومت کو چاہیے کہ اگر صدر کہیں تو وہ ان کو من پسند سکیورٹی اہلکار فراہم کرے تاکہ مراد سعید یہ نہ کہہ سکیں کہ میری درخواست کی شنوائی نہیں ہوئی۔
٭٭٭٭٭
پاکستان کی مہمان نوازی اور خوبصورتی نے جرمن سیاح خاتون کا دل جیت لیا
پاکستان جیسے خود ایک حسین اور خوبصورت نظاروں سے مزین ملک ہے۔ اس کے باسی یعنی پاکستانی بھی نرم دل اور نرم خو لوگ ہیں۔ انسانیت کا درس انہیں اپنے مذہب سے ملتا ہے۔ اسی لیے یہاں وہ اپنی مذہبی اقدار کی بدولت ہر آنے والے مہمان کی بھرپور پذیرائی کرتے ہیں۔ مذہب اور ذات پات سے ہٹ کر پاکستانی اپنے مہمانوں کی دل و جان سے خدمت کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو بھی سیاح یہاں آتا ہے وہ یہاں کے نظاروں کے ساتھ ساتھ یہاں کے لوگوں کی تعریفوں کے بھی پل باندھتا ہے۔ اب تو مخالف چاہے پاکستان کو کتنا ہی بدنام کرنے کی کوشش کرے عالمی اداروں اور اقوام کو بدظن کرنے میں لگا رہے پاکستان آنے والے اس کے مکروہ پراپیگنڈے کا منہ توڑ جواب دیتے ہیں۔ جبکہ خود اس مخالف ملک میں جانے والے سیاحوں کو خبردار کیا جاتا ہے کہ وہاں نہ جائیں وہ سیاحت کے حساب سے دنیا کا ایک خطرناک ملک ہے۔ اس کے برعکس اس جرمن سیاح خاتون کو ہی دیکھ لیں وہ اپنے ورلڈ ٹور پر جب پاکستان آئی سارا ملک گھوما تو جاتے ہوئے کہا کہ جب میں یہاں آئی تو خوفزدہ تھی مگر یہاں آ کر لوگوں سے جو پیار ملا تو پتہ چلا یہ ایک پرامن ملک ہے۔ یہاں کے خوبصورت نظاروں اور لوگوں کی محبت نے میرا دل جیت لیا۔
یہ ہوتا ہے سچ جس کے لیے کوئی ملمع کاری نہیں کرنی پڑتی ۔ غیر بھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ پاکستان میں تو اکثر دکاندار سیاحوں سے کھانے پینے کے پیسے بھی نہیں لیتے۔ یہ ہوتی ہے مہمان نوازی اور یہ ہوتی ہے دریا دلی۔
٭٭٭٭٭
جہاں ضرورت پڑی مولا جٹ کا کردار ادا کروں گا۔ گورنر سندھ
یہ تو سندھ کی قسمت ہے کہ اسے جو بھی گورنر ملتا ہے لاجواب ہی ہوتا ہے۔ اچھے بھی ملے جن کو لوگ اور تاریخ یاد رکھتی ہے۔ باقی کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہتے لوگ خود جانتے ہیں۔ اس پل پل میں صورتحال بدلنے والے صوبے میں سکون کا دور بھی رہا۔ مفادات کا بھی اور سیاسی اختلافات کا بھی مگر کام بہرحال چلتا رہا۔ اب کی بار قرعہ فال متحدہ کے کامران ٹیسوری کے نام نکلا اور وہ گورنر سندھ بن کر بیٹھے ہیں۔ اس سے قبل عمران اسماعیل تھے وہ بھی کمال کے گورنر تھے۔ جدید موٹر بائیکس کے شوقین تھے جوان بننا اور بن کر رہنا انہیں پسند تھا۔ اب بھی ان کو خبروں میں جگہ مل رہی ہے۔ خاص طور پر عمران پر حملے کے بعد خان صاحب نے یہ بتا کر سب کو حیران کر دیا کہ ان کے لباس سے 4 گولیاں ملی ہیں۔ جس پر کسی ظالم نے کہا ہے کہ وہ پینا ڈول کی گولیاں ہونگی۔ اب خیر سے کامران ٹیسوری نے بھی یہ کہہ کر دل جیت لیے ہیں کہ جہاں ضرورت پڑی وہ مولا جٹ کا کردار ادا کریں گے حالانکہ انہیں یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں تھی وہ بذات خود مولا جٹ سے کم نہیں ہیں اور یہ بات سب جانتے ہیں۔ بھئی آخر گورنر کا بھی حق ہے کہ وہ ثابت کرے کہ وہ مٹی کا مادھو نہیں با اثر عہدے کا حامل ہے۔ اسی طرح متحدہ کی تربیت کی وجہ سے انہوں نے اچھا اعلان کیا ہے کہ وہ اگلے ہفتے سے کراچی میں صفائی مہم شروع کریں گے اور خود جھاڑو لے کر کراچی کی سڑکوں کی صفائی کرینگے۔ پہلے یہ کام فاروق ستار بھی کیا کرتے تھے۔ خدا کرے اب کامران ٹیسوری کے حرکت میں آنے سے کراچی محکمہ بلدیہ کے مفت برورکرز بھی بیدار ہو جائیں اور کراچی جو کچرا کنڈی بنا ہوا ہے، اس کی صورت بدل جائے۔
بدھ،19 جمادی الاوّل 1444،14 دسمبر2022ء
Dec 14, 2022