پنجاب میں پہلی دفعہ ڈینگی پھیلا تو جناب شہباز شریف اس وقت کے وزیراعلیٰ تھے۔ انہوںنے ڈینگی کیخلاف چومکھی جنگ لڑی۔ چھتوں پر چڑھ کر کاٹھ کباڑمیں جھانکا، غسل خانوںمیں پانی کی بالٹیا ں چیک کیں، قبرستانوں میں رکھے گملوں ،بالٹیوں وغیرہ میں دوائیاں چھڑکیں،ہر رہائشی سوسائٹی کو پابند کیا کہ وہ خالی پلاٹس میں گھاس نہ اگنے دے ، اس میں ٹریکٹر کی مدد سے ہل چلاکر خود رو گھاس کو بیخ و بن سے اکھاڑدے۔جس سوسائٹی کے خالی پلاٹس میں گھاس دکھائی دیتی، اسے بھاری جرمانہ کیا جاتا۔ روزانہ پورے شہر کے گلی محلوں میں ڈینگی سپرے کیا جاتا ۔ اس طرح چند ماہ کے اندرپورے صوبے بھر سے ڈینگی کا قلع قمع کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
شہبازشریف نہ خود چین سے بیٹھتے تھے ،نہ کسی سرکاری افسر کو چین سے بیٹھنے دیتے تھے۔ ڈینگی کی مانیٹرنگ میٹنگز صبح سویرے طلوع آفتاب سے قبل ماڈل ٹائون میں شروع کردیتے، گذشتہ روز کی کارروائی کا جائزہ لیا جاتا، ایک میٹنگ میں میری بھی باریابی ہوئی ، تو میں نے محسوس کیا کہ میں جس پاک عرب سوسائٹی کا رہائشی ہوں، نہ وہاں اس بیماری کا کوئی نام لے رہا ہے، نہ کوئی صفائی یا ڈینگی چیک کروانے آیا۔حالانکہ میرے اپنے ایک گھر میں ڈینگی کے پانچ مریض تھے، جن میں ایک بزرگ کے زیرو پلیٹ لیٹس تھے، مگر جنرل ہسپتال والے انہیں اپنے ڈینگی وارڈ میں داخل کرنے کے بجائے واپس گھر بھیج دیتے۔ میں نے پوچھا کہ پاک عرب سوسائٹی سے کیوں اغماض برتا جارہاہے۔تو ایک بھاری جثے والے اہلکار نے بتایا کہ یہ سوسائٹی پنجاب کی کسی یونین کونسل کا حصہ نہیں۔
اس پر میں نے بھنا کر کہا کہ کیا ہماری سوسائٹی مشرقی پنجاب میں واقع ہے ۔تو مجھے یہاں کیوں بلایا گیا،اس سے تو بہتر تھا کہ میں مشرقی پنجاب کے وزیراعلیٰ کی کوئی میٹنگ اٹینڈکرلیتا۔اس پر وزیراعلیٰ پنجاب کا موڈ خراب ہوگیا۔ انکے ساتھ بیٹھے پرویز رشید نے مجھے ایک چٹ بھیجی کہ آپ اپنے مسائل اس کھلی میٹنگ میں بیان کرنے کی بجائے وزیراعلیٰ سے ون ٹو ون میٹنگ میں پیش کردیں۔ یعنی میری زبان بندی کردی گئی۔میں نے محسوس کیا کہ وزیراعلیٰ کے صاحبزادے حمزہ شہباز بھی اچھے مشورے دے رہے ہیں۔ تو اس پر میں نے کہا کہ جیسا باپ ، ویسا بیٹا۔بہرحال شہباز شریف کی کوششوں سے میں بے حد متاثر ہوا اورابھی تک اس زمانے کو یاد کرتا ہوں۔ بلکہ اس سال ڈینگی دوبارہ پھیلا تو کچھ زیادہ ہی یاد کرنے لگ گیا ہوں۔
صوبے کے حاکم اس وقت چودھری پرویز الہٰی ہیں۔وہ بھی کام کے دھنی ہیں، نچلے بیٹھنے والے نہیں، انہوں نے مشرف دور میں بہت کارہائے نمایاں انجام دیئے اور اپنے سنہری کارناموں کا ایک ڈھیر لگادیا۔ مگر لگتا ہے کہ وزیراعلیٰ بزدار کے بعد وہ پوری طرح چوکس نہیں ہوسکے۔ اسی لئے گذشتہ تین چار مہینوں میں ایک مرتبہ پھر گھر،گھرڈینگی کے مریض آہ و بکا کررہے ہیں۔
ڈینگی کے بخارسے خدا پناہ میں رکھے، یہ ہڈیوں اور پسلیوں تک کو روند ڈالتا ہے اور جسم میں ایسا درداٹھتا ہے کہ مریض چلانے لگ جاتا ہے ۔ زیادہ تر مریض گھروں میں بیٹھے دیسی ٹوٹکوں سے علاج کرتے ہیں ، اور ہسپتالوں کا رخ نہیں کرتے،کیونکہ اس مرض کا علاج انصاف صحت کارڈ کے تحت نہیں ہوتا۔ جبکہ لوگوں کو خواب تو یہ دکھایا گیا تھا کہ انصاف صحت کارڈ کے ساتھ کسی بھی ہسپتال میں لاکھوں کا علاج مفت کروایا جاسکتا ہے ، مگر ڈینگی کا سینکڑوں روپے کا علاج فری نہیں۔اس لئے مریض دس پندرہ دن گھروں میں ہی ڈینگی کے ہاتھوں پریشانی میں گذارتے ہیں۔
معلوم نہیں وزیراعلیٰ اور ان کی افسر شاہی کہاں مصروف ہیں۔سرکاری ڈینگی ٹیمیں سرگرم عمل نظرنہیں آتیں۔ شہر کے خالی پلاٹوں میں کئی کئی فٹ اونچی گھاس سرکاری مشینری کا منہ چڑاتی ہے ۔ڈینگی سپرے کرنیوالے کہیں دفتروں میں سوئے پڑے ہیں،انہیں جگانے والا کوئی نہیں۔ وزیراعلیٰ چودھری پرویز الہٰی پرفارمنس کے لحاظ سے اچھی شہرت کے حامل ہیں، انہیں خود بھی متحرک ہونا چاہئے اور سرکاری مشینری کو بھی حرکت میں لانا چاہئے۔
عجب بات یہ ہے کہ یہی حکومتیں جنہوں نے دو سال قبل کرونا کا مردانہ وار مقابلہ کیا تھا، اب وہ بھی لمبی تان کر سوگئی ہیں۔ وفاقی سطح پر ایک کرونا کمیٹی قائم تھی جسے ہمارے فوجی بھائی منظم طریقے سے چلارہے تھے۔
لاہور میں محترمہ ڈاکٹر یاسمین راشد ہر روز بریفنگ کیلئے موجود ہوتی تھیں۔ہمارے دوست ڈاکٹر محمود شوکت صوبائی کرونا کمیٹی کے اعزازی چیئرمین تھے۔ کرونا کیخلاف لڑائی میں انہوں نے اپنی صحت کی بھی پرواہ نہیں کی، دومرتبہ اس لڑائی نے ان پر سنگین وار کئے، مگر فوج کی پشت پناہی کی وجہ سے پاکستان نے کرونا کو کنٹرول کرنے میں باقی ممالک کے مقابلے میں بڑی کامیابی حاصل کی لیکن اب وہی ملک ہے، وہی حکمران ہیں، مگر کرونا بے قابو ہورہا ہے۔ کوئی گھر شاذوناذر ہی اس موذی مرض سے محفوظ رہا ہوگا،ورنہ کیا بچے اور کیا بڑے…سب اس موذی وباکا شکار ہوچکے ہیں۔
شکر یہ ہے کہ عوام نے کرونا ویکسین لگوارکھی تھی، بعض نے تو اضافی ڈوز بھی لگوائی ہے۔ جس کی وجہ سے کرونا نے دوسال پہلے والی قیامتِ صغریٰ برپا نہیںکی۔ اس پر ہمیں اللہ کا شکر کرنا چاہئے ۔ مگر ساتھ ہی پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے حاکم اعلیٰ کو سیاسی جھمیلوں سے فارغ ہوکر عوامی فلاح وبہبود پر بھی توجہ دینی چاہئے۔ کہ ان کے صوبے کا جنوبی حصہ شدید سیلاب کی بھینٹ چڑھا،وہاںکئی متعدی بیماریاں پھیلیں۔جن میں کرونا بھی شامل ہے۔
ہم عالمی ادارہ صحت کی ہدایات کے مطابق مکھی پر مکھی مارتے چلے جارہے ہیں، اگر وہ کہہ دے کہ ماسک پہنیں، مصافحہ نہ کریں، گلے نہ ملیں، چھ فٹ کا فاصلہ رکھیں، تو ہم آنکھیں بند کرکے اس کی ہدایات پر عمل کرتے ہیں۔
اب جبکہ یہ عالمی ادارہ کسی وجہ سے خاموش ہے ، تو ہم نے بھی حفاظتی اور احتیاطی تدابیر کو ہوا میں اڑادیا ہے ۔ حکومت کو اس سلسلے میں عوام الناس کی رہنمائی کیلئے آگے بڑھنا چاہئے اور لوگوں کو احتیاطی تدابیر کا سبق یاد کرواتے رہنا چاہئے۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ وطن عزیز سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے ، حکومتوں کو یہ معلوم نہیں کہ وہ کل ہیں یا نہیں، اس لئے وہ کرونا یا ڈینگی یا دیگر قدرتی آفات سے عوام کو بچانے کے بجائے اپنی حکومتیں بچانے کی فکر میں غلطاں ہیں۔
کم از کم وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کو حکومتی باگ ڈور سختی سے اپنے ہاتھ میں تھام لینی چاہئے تاکہ عوام کالانعام موذی بیماریوں سے شکار ہونے سے بچ سکیں۔ پرویز الٰہی خاطر جمع رکھیں، ان کی حکومت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں۔ بس وہ عمران خان کو اپنے لئے خطرہ نہ بننے دیں، باقی اللہ بھلی کرے گا۔
جناب وزیراعلیٰ پنجاب توجہ فرمائیں
Dec 14, 2022