پرنس ہیری اور پاکستانی سیاستدانوں کی اولادیں

Dec 14, 2022


معاشرہ عدل و انصاف کے بغیر بانجھ ہو جاتا ہے۔ پاکستان کی بات کی جائے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہاں انصاف ہوتا نظر نہیں آتا جبکہ سعودی عرب یا کسی یورپی ملک میں عدل و انصاف کا ایسا نظام قائم ہے کہ ڈھونڈنے سے بھی جرم نہیں ملتا۔ کہیں اگر کوئی جرم سرزد بھی ہوتا ہے تو اُن کی تعداد بس آٹے میں نمک کے برابر ہے۔اگرچہ ہم نے برطانوی قوانین سے استفادہ کیا ہے۔اُنکی بہت سی کلاز تعزیرات پاکستان میں شامل کر رکھی ہیں لیکن پھر بھی پوری طرح ہم اس نظام عدل کو اپنی ریاست کا محور نہیں بنا سکے۔ جس کی مثالیں دیتے ہوئے ہمارے سیاسی زعما نہیں تھکتے۔ حالانکہ صورتحال یہ ہے کہ برطانیہ کے عام لوگ ہی نہیں، معتبر لوگ بھی قانون کی پاسداری کرتے ہیں۔ شہزادہ چارلس اور لیڈی ڈیانا کا چھوٹا بیٹا پرنس ہیری جسے ابتدائی تعلیم کیلئے ایڈمشن ٹیسٹ پاس کرنا تھالیکن بمشکل ہی ٹیسٹ پاس کر کے ایٹن کالج میں داخلہ مل گیا۔
2003ء میں ہیری نے دو اے لیولز مکمل کئے۔اُس کی ٹیچر نے رپورٹ میں لکھا کہ ’’پرنس ہیری ایک کمزور سٹوڈنٹ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ایٹن کالج کی انتظامیہ نے پاس ہونے میں ہیری کی مدد کی ہے۔‘‘
ٹیچر کے ان کمنٹس پرکالج نتظامیہ نے کہا کہ پرنس ہیری کو پاس ہونے میں کوئی مدد فراہم نہیں کی۔ تاہم کالج بورڈ آف گورنرز نے ایک کمیٹی بنا کر معاملے کی تحقیقات کا آغاز کر دیا۔مذکورہ کمیٹی نے تین ہفتے کی تحقیقات کے بعد پتہ لگایا کہ ہیری کو اگرچہ امتحانات میں کسی قسم کی مدد نہیں ملی۔ تاہم اسے اے لیول پاس کرنے کیلئے جو پراجیکٹ دیا گیا اُس کیلئے چند ٹیچرز نے اسے ٹپس اور مشورے ضرور دئیے تھے جو کہ رولز اور ضابطے کی کھلی خلاف ورزی تھی۔ چنانچہ ہیر ی کو مشورے اور ٹپس دینے والے ٹیچرز کو وارننگ جاری کی گئی جس پر انہوں نے اپنے اس فعل پر شرمندگی کا اظہار کیا اور معافی بھی مانگی۔
کالج سے فارغ ہونے کے بعد پرنس ہیری نے ایک سال آسٹریلیا میں ایک مویشی فارم میں اس نے کیٹل فارمنگ کی ٹریننگ حاصل کی۔ ساتھ ساتھ گولف میں بھی حصّہ لیا۔ آسٹریلیا سے واپسی پر 2005ء  میں پرنس ہیری نے رائل ملٹری اکیڈمی میں داخلہ لیا۔ جہاں دو سال کی ٹریننگ کے بعد لیفٹیننٹ بن گیا۔ 2006ء میں اُس کی رجمنٹ کو عراق بھیجنے کا اعلان ہوا تو عوامی سطح پر بحث شروع ہو گئی کہ کیا برطانوی شہزادے کو عراق کے جنگی محاذ پر بھیجنا درست ہو گا؟ برطانیہ کی وزارت دفاع نے بیان جاری کیا کہ پرنس ہیری اگر خود جانے سے انکار کر دے تو اُسے اپنا ملٹری کیرئیر ترک کرنا ہو گا۔ پرنس ہیری نے عوامی مطالبے کے خلاف عراق جانے کو ترجیح دی اور اعلان کیا کہ اگر اُسے اگلے مورچوں پر نہ بھیجا گیا تو وہ احتجاجاً ملٹری چھوڑ دے گا۔
ہیری خفیہ طور پر افغانستان بھی گیا۔ تاہم 2005ء میں اُس نے ملٹری چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ ایک امریکی اداکارہ میگھن مرکل سے لو میرج کے بعد ہیری اپنی بیوی کے ساتھ ایک سال تک اپنے شاہی خاندان کے ساتھ رہا۔ بعدازاں شاہی خاندان چھوڑ کر ایک عام انسان کی طرح زندگی گزارنے کا فیصلہ کر لیا۔ چنانچہ پرنس ہیری نے تمام شاہی سہولیات اور مراعات چھوڑ کر عام انسانو ں کی طرح زندگی بسر کرنا شروع کر دی اور اپنی بیوی کے ساتھ پہلے کینیڈا اور پھر امریکہ میں سکونت اختیار کی۔جہاں وہ ایک امریکی تنظیم سے ایک معاہدے کے تحت پچاس کے قریب اداروں میں لیکچر دے گا اور ان کے عوض اسے جو معاوضہ ملے گا اُس سے اپنی گزر اوقات کریگا۔یہ ہیں برطاینہ کے شاہی خاندان کے ایک فرد کے حالات۔ جسے نہ تو تعلیم کے دوران کوئی مدد ملی، نہ وہ اپنی عملی زندگی شاہانہ طریقے سے بسر کرنے کی پوزیشن میں رہا جبکہ دوسری جانب پاکستانی سیاستدانوں کو دیکھیں تو اُن کے بچے حکومتی سہولیات اور مراعات کا کس قدر فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ملک میں ہوں یا ملک سے باہر وہ شاہانہ زندگی بسر کرتے ہیں۔ شریف خاندان ہو یا زرداری خاندان۔ انہوں نے ہمیشہ اپنی ٹیکس ریٹرن میں خسارہ ہی ظاہر کیا ہے۔ نواز شریف کے بیٹے نوعمری میں ہی لندن کے سب سے مہنگے علاقوں میں اربوں روپے مالیت کی پراپرٹی خرید چکے ہیں۔ جبکہ زرداری کی بھی دوبئی کے مہنگے ترین علاقوں میں اربوں روپے کی قیمتی جائیدادیں ہیں اور اُن کے بچے عیش کی زندگی بسر کرتے ہیں۔مغرب میں حکومتی یا پھر کوئی شاہی خاندان سے ہی کیوں نہ تعلق رکھتا ہو وہ سادگی کی زندگی گزارتا ہے، اُن میں ایمانداری ہوتی ہے اور دیانت داری بھی۔ لیکن پاکستان میں یہ سب کچھ ناپید ہے۔ دولت کی ہوس اور اقربا پروری نے ہمیں کہیں کا نہیں رکھا۔ ہم اپنی ریاکاریوں کی بدولت پوری دنیا میں بے نقاب اور بدنام ہو چکے ہیں۔سیاستدانوں کے مقدمے عدالتوں میں چلتے ضرور ہیں۔ لیکن نجانے کیا وجہ ہے کہ وہ مقدمات سے بالآخر صاف بری ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں ان طاقتور حلقوں اور لوگوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اربوں روپے کے اسکینڈلز سامنے آتے ہیں۔ نیب نے ان اسکینڈلز کا نوٹس بھی لیتا ہے لیکن بنتا کچھ نہیں۔ قوم نتائج سے محروم رہتی ہے۔ 
یہی وجہ ہے کہ ہم ایک بدحال قوم بن چکے ہیں۔ جو کچھ ہورہا ہے اور جو کچھ ہم روز ہوتے دیکھتے ہیں وہ ہمارے نظام عدل کیلئے کھلا چیلنج ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ جس ملک میں عدل کا نظام نہیں ہوتا، جہاںکمزور کیلئے قانون حرکت میں آتا ہے اور طاقتور صاف بچ جاتا ہے وہاں ریاستی امن کیسے پیدا ہو سکتا ہے۔ جہاں ریاستی امن نہ ہو وہاں بے سکونی، افراتفری اور معاشی بدحالی رہتی ہے۔ ضروری ہے کہ ہم اپنے ملک کو عدل و انصاف کا گہوارہ بنائیں۔ ہمارے ہاں ایسا نظام عدل ہو جو کوئی بھی خلاف قانون کام کرے، آئین توڑے وہ چاہے کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو ریاست اور قانون اسے انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کر دے۔ آپ نے پرنس ہیری کی ہسٹری دیکھی وہ کیا کچھ نہیں کر سکتا تھا کتنی طاقتیں اُسکے پاس تھیں لیکن کہیں بھی، کسی نے بھی اُس کی کوئی مدد نہیں کی۔ امریکہ کے مختلف اداروں میں وہ لیکچر دیکر اپنی روزی کما رہا ہے لیکن ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں کی اولادیں ایسا کیوں نہیں کرتیں؟ ہیری کی مثال سامنے رکھیں تو ہمیں اپنے آپ پر شرم آنے لگتی ہے۔

مزیدخبریں