مشرقی پاکستان فوجی نہیں سیاسی ناکامی 


سقوطِ ڈھاکہ کے51 سال گزرجانے کے بعد جو حقائق سامنے آرہے ہیں وہ چشم کشاء ہی نہیں باعثِ حیرت بھی ہیں ، یومِ دفاع اور شہداء کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سابق آرمی چیف جنرل(ر) قمر باجوہ نے کہا تھا کہ ’’ میں آج ایسے موضوع پر بھی بات کرنا چاہتا ہوں جس پر بات کرنے سے گریز کیا جاتا ہے، یہ بات 1971 ء میں ہماری فوج کی سابقہ مشرقی پاکستان میں کارگردگی سے متعلق ہے ، میں حقائق درست کرنا چاہتا ہوں سب سے پہلے سابقہ مشرقی پاکستان ایک فوجی نہیں سیاسی ناکامی تھی لڑنے والے فوجیوں کی تعداد 92 ہزار نہیں صرف 34 ہزار تھی ‘‘جنرل باجوہ نے 11 سال کی تاخیرسے یہ انکشاف کیا جب کہ اپریل، 2011 ء میں شرمیلا بھوس جو کہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں اور انڈیا کے قوم پرست رہنما سبھاش چندر بھوس کی پوتی ہیں وہ اپنی کتاب ’’ ڈیڈ رکننگ ‘‘ میں یہ سب کچھ رقم کر چکی ہیں ۔
شرمیلا بھوس لکھتی ہیں کہ ’’ 1971 ء کے اعدادو شمار میں 93 ہزار پاکستانی فوجیوں کے ہتھیار ڈالنے کے معاملے پر اس قدر بحث و تکرار کی گئی ہے کہ تقریباً اب یہ نا قابلِ تردید صورت اختیار کر چکے ہیں ، لوگوں میں اس تعداد پر ابہام ہے بھارت کے پاس جنگی قیدیوں کے بارے میں اعدادو شمار درست ہونے چاہئیں ، تاہم ایسا نہیں ہے ، مارچ 1971 ء میں مشرقی پاکستان میں موجود مغربی پاکستان کے سپاہیوں کی کل تعداد 12 ہزار تھی ، نازک صورتحال کے پیشِ نظر مغربی پاکستان سے مزید دستے لائے گئے ، 1971 ء میں کمانڈر ایسٹرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل اے اے کے نیا زی کے مطابق ان کے پاس فوج کے مجموعی طور پر 34 ہزار افسر اور سپاہی تھے ، باقی پولیس، سول آفیسر ، سٹاف ، خواتین اور بچے تھے ، ان کو ملا کر قید کئے جانے والوں کی تعداد درست ہو سکتی ہے ، لیکن یہ کہنا کہ 93 ہزار فوجیوں کو قیدی بنایا گیا سراسر جھوٹ ہے ‘‘
پرنٹ میڈیا کا زمانہ تھا عام افراد بعض مخفی حقائق سے لا علم رہ جاتے تھے ، لیکن اب الیکٹرونک میڈیا کا دور ہے کوئی بات پوشیدہ نہیں رہتی ، تاآنکہ کو ئی قدغن آڑے نہ آئے ، چونکہ اب سابق آرمی چیف نے حقائق کی بات کی ہے تو اس میں ہم بھی تھوڑی سے تصحیح کر دیں کہ قائد ملت لیاقت علی خان کو اقتدار سے گولی مار کر علیحدہ کرنے کے بعد مغربی اور مشرقی پاکستان میں ماشل لاء کا دور رہا ، جب سقوطِ ڈھاکہ رونما ہوا سیاسی قیادت تو اقتدار سے باہر تھی ، 25 مارچ 1971 ء کو یحییٰ خان نے فوجی آپریشن کا اعلان کیا تھا جب کہ تین ماہ قبل مشرقی اور مغربی پاکستان میں عام انتخابات ہو چکے تھے ، مشرقی پاکستان میں عوام کے دلوں میں ایک لاوا چھپا ہوا تھادلوں میں چھپے لاوے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایاجا سکتا ہے کہ 1970 ء کے انتخابات کے اختتام پر آئین سازی کے سلسلے میں ذوالفقار علی بھٹو شیخ مجیب الرحمن سے ملنے ڈھاکہ پہنچے بات چیت کے بعد صحافیوں سے گفتگو کے دوران شیخ مجیب الرحمن نے بھٹو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اردو میں کہا ’’ اشے دو رش گلے اور چائے دو ، کیوںکہ یہ میرا دوست بھی ہے اور دشمن بھی ‘‘ سقوطِ ڈھاکہ جہاں انتہائی تکلیف کا باعث بنا وہیں اس واقعہ کی خبر کو مکاری اور فریب سے عوام تک پہنچانے کیلئے منصوبہ بندی کی گئی تھی ، کیونکہ یہ ایک بہت بڑا المیہ تھا جس سے عوام میں اشتعال پھیل سکتا تھا ، لہذا سقوطِ ڈھاکہ کی خبر کو جن الفاظ کا جامہ پہنایا گیا وہ کچھ یوں تھے ’’ دو مقامی کمانڈروں کے درمیان سمجھوتہ طے پانے کے بعد جنگ بندی ہو گئی ‘‘ اس خبر کی اخبارات میں اس طرح ترتیب ہوئی کہ مرکزی سرخی میں سقوطِ ڈھاکہ یا جنگ بندی کا ذکر نہیں کیا دوسری لائن میں لکھاگیا، ’’مشرقی پاکستان میں ایک سمجھوتہ کے بعد جنگ بند ہو گئی ‘‘  جس روز مغربی پاکستان کے اخبارات کے صفحہ اول کی شہ سرخی کے نچلے نصف میں یہ خبر شائع ہوئی وہیں جنرل یحییٰ خان کی تقریر آٹھ کالمی شہ سرخیوں میں شائع ہوئی ، کہ وقتی طور پر ایک محاذ پر پیچھے ہٹنے کے باوجود باقی محاذوں پر دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائیگا ، اور اسکے اگلے دن یحییٰ خان نے جنگ بندی کا اعلان کر دیا تھا۔یحییٰ خان کے فوجی آپریشن کے اعلان سے مشرقی پاکستان میںمزید حالات بگڑ گئے مظاہرین اور فوج کے درمیان تصادم سے 64 افراد کے مارے جانے کی خبریں چھپنے کے اگلے روز ملک کی تمام سیاسی جماعتوںپر پابندی عائد کر دی گئی اور ملک بھر میں سنسر شپ نافذ کر دی ، جب ڈھاکہ کی قیادت مغربی پاکستان کی قیادت اور جنرل یحییٰ خا ن کسی معاہدے پر متفق نا ہوئے تو 23 ، مارچ1971 ء کو شیخ مجیب الرحمن نے آئینی تجاویز دیںجن میں کنفیڈریشن کی تجویز بھی شامل تھی ، کنفیڈریشن کی اس تجویز کا مغربی پاکستان کے کسی اخبار میں ذکر نہیں کیا گیا، ملک کے نامور صحافی سے جب اس بارے استفسار کیا تو انہوں نے کہا کہ ’’ آپ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ وہ مارشل لاء کا زمانہ تھا سنسر شپ تھی اطلاعات کی روانی ختم ہو چکی تھی۔ ناکامی فوجی یا سیاسی تھی بحیثیت قوم یہ مجموعی ناکامی تھی ، اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ براء ہونا قومی سانحہ کے مترادف ہے، جو رونما ہو گیا۔

ای پیپر دی نیشن