پاکستان سے ہجرت کرنیوالوں نے 60اور 70کی دہائی میں اپنے خوابوں اور بہتر مستقبل کو سنوارنے کیلئے عرب، ساؤتھ ایشیائی، یورپی اور امریکا، آسٹریلیا اورکینیڈا جیسے ممالک کا رْخ کیا تھا جہاں ان تارک وطنوں نے محنت مزدوری اور جفاکشی سے اپنا اور اپنے اہل خانہ کی کفالت کا ذمہ اْٹھایا انہیں بہتر سہولیات دیں اور اپنی اولادوں کو تعلیم یافتہ بنانے میں کوئی کسر نہ اْٹھا رکھی، بچوں کو اعلیٰ تعلیم یافتہ بنانے کا مقصد یہ تھا کہ وہ پاکستان میں رہ کر وہاں کے مختلف شعبوں اور اداروں میں کام کریں اور اپنے آباؤ اجداد کا نام روشن کرنے کے ساتھ ساتھ ملکی ترقی میں اپنا کردار احسن طریقے سے نبھائیں۔ اس اثناء میں پاکستان کی سیاست اور حکومتوں کے عروج و زوال کی داستانیں لکھی جاتی رہیں، مختلف حکومتیں آئیں لیکن وہ اْن تارکین وطن پاکستانیوں کی سہولت اور فلاح کیلئے کوئی ایسا کارنامہ سر انجام نہ دے سکیں جس سے ثابت ہوتا کہ جو اوورسیز پاکستانی ملکی معیشت کے بڑھاوے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اْن کو وطن عزیز میں عزت اور اعلیٰ اقدار سے وطن واپس آنے پر خوش آمدید کہا جاتا ہے یا اْنکے حقوق کی پاسداری کی جاتی ہے،اوورسیز پاکستانیوں کی جائیدادوں کی حفاظت اوراْن کے جان و مال کا تحفظ انتہائی مخدوش حالات سے دوچار رہا۔پاکستان کو جب بھی کبھی قرض اْتارو ملک سنوارو، ہسپتال بنانے، فلاحی اداروں کے قیام، زلزلے اور سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کی کفالت یا اس طرح کی کسی بھی قدرتی آفت سے نبرد آزما پاکستانی حکومت کو فنڈز کی ضرورت پڑی تو اوورسیز پاکستانی ہراول دستوں کی طرح صف اؤل میں کھڑے نظر آتے اور دل کھول کر عطیات دیتے ہیں۔تارکین وطن پاکستانیوں نے جب وطن عزیز میں جاری لاقانونیت اور عدم تحفظ کو دیکھا تو انہوں نے اپنے بچوں کو پاکستان لے جانے، انہیں وہاں کی تہذیب و تمدن سے روشناش کرانے اور اپنے بزرگوں کی روایات کو رواں دواں رکھنے میں دلچسپی لینا چھوڑ دی اور دیار غیر میں ہی سکونت کو ترجیح دینے پر اکتفا کیا۔ پاکستان میں جاری اقتدار کی جنگ کے ثمرات اس طرح بھی نظر آئے کہ وہاں رہنے والا نوجوان بھی اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے لگ گیا، نوجوان نے نسل نے اپنی حق تلفی پر احتجاج کیا لیکن وہ بے سود رہا، کیونکہ جن کے سامنے احتجاج ہوتا وہی شخصیات تو حق تلفی میں پیش پیش ہوتی تھیں۔ اس عمل نے پاکستان کے پڑھا ے لکھے نوجوان طبقے کو وطن سے ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا، والدین نے بھی اپنی جائیدادیں فروخت کرکے اپنے بچوں کو دوسرے ممالک بھیجنے کی کوششیں اس قدر تیز کر دی ہیں کہ رواں سال پاکستان کے مختلف شعبوں کا تعلیم یافتہ نوجوان اپنے وطن کو چھوڑنے پر مجبور ہو گیا ہے۔کیونکہ اس سال بہت بڑی تعداد میں پڑھے لکھے نوجوانوں نے ملک میں جاری بے روزگاری،روزگار کے کم ہوتے مواقع، غیر یقینی معاشی اور سیاسی صورتحال کی وجہ سے بیرون ملک ملازمت کا انتخاب کیاہے، رواں سال میں 765,000 افراد پاکستان چھوڑ کر بیرون ملک گئے، پاکستانی تعلیم یافتہ مہاجرین کی ایک بڑی اکثریت مشرق وسطیٰ کے ممالک، خاص طور پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں گئی۔اسی طرح یورپی ممالک میں نوجوانوں کو ’’رومانیہ‘‘ جانے میں آسانی نظر آئی۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان میں خراب ہوتی ہوئی معاشی صورتحال کے ساتھ ساتھ سیاسی غیر یقینی صورتحال کے اثرات پاکستان کی افرادی قوت پر بھی پڑنا شروع ہو گئے ہیں۔لاکھوں نوجوان جو پڑھے لکھے ہیں لیکن اْن میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی شامل ہیں، جو مہنگائی، بے روزگاری اور غیر یقینی معاشی اور سیاسی صورتحال سے پریشان ہیں، روزگار کی تلاش میں ہر سال بیرون ملک جا رہے ہیں۔
جس طرح اس سال 765,000 نوجوان بیرون ملک گئے اسی طرح 2019 میں 625,000 نے ہجرت کی تھی ہجرت کرنے والوں کی تعداد میں دو سالوں میں کمی کے بعد اضافہ ہوا ہے۔ 2022 میں ملک چھوڑنے والوں میں 92,000 سے زائد گریجویٹ، 350,000 تربیت یافتہ کارکن اور اتنی ہی تعداد میں غیر تربیت یافتہ مزدور بیرون ملک گئے۔ نقل مکانی کرنے والے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں 5,534 انجینئرز، 18,000 ایسوسی ایٹ الیکٹریکل انجینئرز، 2500 ڈاکٹرز، 2000 کمپیوٹر ماہرین، 6500 اکاؤنٹنٹ، 2600 زرعی ماہرین، 900 سے زائد اساتذہ، 12,000 کمپیوٹر ایکسپرٹ، 6701 کمپیوٹر آپریٹرز، 6701 ٹیکنک آپریٹرز اور غیر ہنر مند کارکنوں کے گروپ میں 213,000 ڈرائیور شامل ہیں۔اعداد و شمار کے مطابق 730,000 سے زائد نوجوان خلیجی ریاستوں میں گئے، تقریباً 40,000 یورپی اور دیگر ایشیائی ممالک گئے۔ ملک کے حساب سے اعداد و شمار کے مطابق 470,000 پاکستانی روزگار کیلئے سعودی عرب گئے، 119,000 یو اے ای، 77,000 عمان، 51,634 قطر اور 2,000 کویت گئے۔سرکاری دستاویزات کے مطابق 2 ہزار پاکستانی عراق، 5 ہزار ملائیشیا، 602 چین، 815 جاپان اور 136 ترکی گئے۔ دستاویزات میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ 478 پاکستانی روزگار کی تلاش میں افریقہ کے ملک سوڈان گئے۔یورپی ملک ہجرت کرنے والوں میں سب سے زیادہ تعداد 3,160 نوجوانوں کی تھی جو رومانیہ گئے۔ اس کے بعد برطانیہ میں 2500، اسپین 677، جرمنی میں 566، یونان میں 497 اور اٹلی میں 292 افرادگئے اسی طرح امریکہ جانے والے 700 افراد کو رجسٹر کیاگیا ہے۔ملک چھوڑنے والوں میں نصف سے زیادہ کا تعلق پنجاب سے تھا۔ رواں سال 424,000 مہاجرین پنجاب، 206,000 خیبر پختونخوا کے علاوہ 38,000 نئے ضم شدہ قبائلی اضلاع سے، 54,000 سندھ، 27,000 آزاد کشمیر، 7,000 بلوچستان اور 6,000 اسلام آباد سے بیرون ملک پہنچے ہیں۔ پاکستان میں جاری معاشی و سیاسی صورت حال کی بے یقینی کا اگر یہی تناسب رہا تودہائیوں سے دوسرے ممالک میں مقیم اوورسیز پاکستان جائیں یا نہ جائیں لیکن وہاں رہنے والے بیرون ممالک آکر تارکین وطن کہلوانے میں فخر محسوس کریں گے۔