پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی برطانوی ٹیم کا ملتان میں کھیلے جانے والے دوسرے کرکٹ ٹیسٹ میچ میں لنچ کے وقفہ سے پہلے آخری اور تھا۔ سعد شکیل 94 رنز پر بیٹنگ کر رہے تھے وہ انتہائی پر اعتماد اور محتاط انداز میں اپنی سنچری کی طرف بڑھ رہے تھے۔ میچ میں اس دن چار گھنٹے اور پانچواں پورا دن باقی تھا۔ پاکستان کو جیتنے کیلئے 62 رنز درکار اور 4 وکٹیں باقی تھیں۔ یہ میچ جیت کر سیریز برابر کرنے کا بہترین موقعہ تھا اور پھر کرکٹ کی تاریخ کا ایسا واقعہ پیش آتا جس پر نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھر میں کرکٹ کے شائقین انگشت بدندان رہ گئے۔ ہوا یوں کہ مارک وڈ کی ایک گیند سعد شکیل نے دفاعی انداز سے کھیلی لیکن بلے کو چھوتی ہوئی وکٹ کیپر اولی پاپ کے ہاتھوں میں گئی اور وہ اسے صاف طورپر کیچ نہ کر سکے اور گیند کا کچھ حصہ زمین پر لگ گیا۔ پوری انگلش ٹیم نے زُوردار اپیل کی۔ علیم ڈار نے کافی ہچکچاہٹ کے بعد اگرچہ آﺅٹ قرار دیے دیا لیکن اپنا شک دور کرنے کے لئے خود ہی تھرڈ ائمپائر جوئل ولسن سے رجوع کیا۔ جوئل ولسن نے ری پلے کئی بار دیکھا اور کافی دیر لگانے کے بعد سعد شکیل کو آﺅٹ قرار دے دیا۔ میدان میں موجود تقریباً تمام شائقین اور کمنٹری باکس میں موجود ماہرین میں سے بھی کچھ کی رائے تھی کہ وکٹ کیپر کے ہاتھوںمیں آنے کے بعد گیند کا کچھ حصہ زمین پر لگ گیا تھا اس لئے شکیل کو ناٹ آﺅٹ قرار دینا چاہیئے تھا۔
اس غلط فیصلے نے کھیل کا نقشہ بدل دیا۔ سعد شکیل کو سنچری بنانے سے محروم کر دیا اور پاکستان 26 رنز سے میچ ہار گیا۔ برطانیہ چونکہ پہلا ٹیسٹ میچ جو راولپنڈی میں ہوا تھا پہلے ہی جیت چکا تھا اس لئے اس نے سیریز 2-0 سے اپنے نام کر لی۔ جوئل ولسن کے اس فیصلے کو کرکٹ کی تاریخ میں بد ترین فیصلے کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ کرکٹ ماہرین وقار یونس، عاقب جاوید، سکندر بخت اور کئی مشہور سابق کھلاڑیوں نے اس فیصلہ پر مایوسی کا اظہارکیا۔ غیر ملکی کرکٹ کے ماہرین نے بھی اس فیصلہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔مائک اتھرٹن نے کہا کہ جب گیند گھاس کو چھو رہی تھی تو وکٹ کیپر کی انگلیاں بال کے نیچے نہیں بلکہ اُوپر تھیں۔ سابق انگلش کپتان مائیکل واغن نے بھی یہی رائے دی کہ گیند گھاس پر لگ گئی تھی۔ میٹ رولر نے کہا کہ اولی پاپ کی انگلیاں گیند کے نیچے نہیں تھیں جب وہ گھاس سے چھو رہی تھی۔ مارٹن نے تبصرہ کیا کہ جب بھی زمین کو چھوتے ہوئے کیچ پر فیصلہ کرتے ہیں تو شک کا فائدہ ہمیشہ بلے باز کو دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر این کے چند راس کی بھی یہی رائے تھی کہ شک کا فائدہ بے بازکو دیا جانا چاہئے تھا۔ لیکن شاید اَب اس اصول پر عمل درآمد کرنا چھوڑ دیا گیا ہے۔ ہمیں اس بات پر حیرت ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب بھی کوئی متنازعہ فیصلہ دیا جاتا ہے تو وہ پاکستان کے خلاف ہی کیوں ہوتا ہے۔ میرے خیال میں آئی سی سی کے مقرر کردہ ائمپائر عام طور پر بڑی ٹیموں کے حق میں ہی فیصلے کرتے ہیں کیونکہ ان ملکوں کی آئی سی سی میں اجارہ دار ی ہے۔ پاکستان کو چاہئے کہ سعد شکیل کے غلط آﺅٹ دینے کے معاملے کو آئی سی سی کے سامنے اُٹھائے اور انہیں یہ تجویز دے کہ آئندہ سے ایک تھرڈ ائمپائر کی بجائے تین ائمپائر ز کا ایک پینل تشکیل دیا جانا چاہئے تاکہ غلط فیصلوں کا تدارک کیا جا سکے۔