گزشتہ ماہ لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ نے راولپنڈی کی سب سے پرانی اور شاندار روایات کی حامل درسگاہ گورڈن کالج) قیام1893 ( کوکریسچن کمیونٹی کو واپس کرنے کا حکم صادر کیا جس وجہ سے زیر تعلیم 3500طلباءو طالبات ان کے والدین ، 150 کے قریب تدریسی اور غیر تدریسی سٹاف میں ہیجان ، مایوسی اور پریشانی چھا گئی ۔ حکومت پنجاب سپریم کورٹ میں اپیل میں چلی گئی ،شنید ہے کہ حکومت اور کرسچن کمیونٹی کے درمیان معاہدہ طے پا چکا ہے جس کے تحت یہ درسگاہ جلد ہی اس کمیونٹی کے حوالے کر دی جائے گی۔ احتجاج کے باعث نہ صرف طلباءکا قیمتی وقت ضائع ہو رہا ہے بلکہ عام شہری بھی اس سے خاصے متاثر ہو رہے ہیں۔ حکومت پنجاب کی اس کیس میں ہزیمت کی وجوہات میں گزشتہ کئی سالوں سے ایسے پرنسپلز کی تعیناتی ہے جہاں قابلیت تجربہ اور اعلیٰ تعلیم کو بالائے طاق رکھ کہ سفارش کو معیار بنایا گیا ۔ ان پرنسپل حضرات نے اپنی خدمات استاد کی بجائے افسر بن کے سر انجام دیں وہ اس ادارے کی عظمت کو بحال نہ رکھ سکے ۔ہیڈ کی کوتاہی دیکھیں کہ 2018 میں اسی شہر کے بڑے کالج کو بحیثیت وائس پرنسپل افراتفری کا شکار کرنے والے پروفیسر صاحب جس کے پاس نہ اعلیٰ تعلیم تھی نہ تجربہ اس ادارے کا سربراہ بنایا گیا اور اس کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس کالج کو عارضی پرنسپلز کے حوالے کر دیا گیا۔ جس کے باعث تعلیمی نتائج شرمناک حد تک گر گئے جو سوشل میڈیا کی زینت بنے ۔ اس میں شک نہیں کہ اس ادارے کی تباہی میں وہ اساتذہ بھی شامل ہیں جو کالج ٹائم میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا حصہ رہتے مگر ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس طرح اساتذہ کی تعداد 10فیصد بھی نہیں ۔ گویا 90فیصد اساتذہ اس سے مبرّہ ہیں ۔ اس کی بھی بنیاد ی ذمہ داری کالج پرنسپل ، ڈائریکٹر کالجز ، ڈی پی آئی کالجزاور بالخصوص سیکرٹری ایچ ای ڈی کی ہے ۔ نوٹیفیکیشن کے مطابق کالج ٹائم میں کوئی اور تجارتی کام کرنا غیر قانونی ہے جبکہ گزشتہ کئی سالوں سے شائد ہی اعلیٰ حکام نے اس نوٹیفیکیشن پہ عمل درآمد کروا یا ہو۔ کاش حکام بالا ان اساتذہ کو موقع پر پکڑتے اورنوکری سے برخواست کرتے بلکہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو بھی سیل کرتے۔ آخر یہ حکام تنخواہ کس چیز کی لیتے ہیں ؟ یاد رہے شہید ذوالفقار علی بھٹو نے 1972 میں دیگر تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ 155 کالجز اس لیے قومیائے کہ پاکستان کی 25فیصد شہری آباد میں مرکوز ہونے کے ساتھ ساتھ بھاری برکم فیس وصول کر رہے تھے۔ آج 50سال کے بعد بھی یہ چیزیں زیادہ شدت کے ساتھ محسوس کی جا رہی ہیں کیونکہ ہماری 65فیصد آبادی غربت کی لکیر سے مہنگائی اور بے روزگاری کے باعث نیچے چلی گئی۔ لہٰذا اس طرح کے اداروں کی نجکاری کرنا غریبوں سے بہت بڑی دشمنی بلکہ سازش ہے ۔ گورڈن کالج اور دیگر سرکاری اداروں کی انٹرمیڈیٹ کی سالانہ فیس 4500سے8000 سالانہ بی ایس فیس 8سے 10ہزار سالانہ جبکہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو فیس بالترتیب اوسطاً 1سے 2 لاکھ روپے سالانہ ہے ۔ یہی کمیونٹی جو لاہور میں کالج چلا رہی ہے 2لاکھ روپے تک سالانہ فیس وصول کر رہی ہے گو وقتی طور پر اس کالج کو اپنی تحویل میں لینے کے لیے زیر تعلیم طلباءسے یہ بہت ہی کم فیس یا بالکل کوئی فیس وصول نہیں کریں گے لیکن مستقبل میں یہ بہت بھاری فیسیں ہونگی۔ کالج کی نجکاری کے باعث راولپنڈی ہی کہ نہیں پورے پاکستان کے طلباءجو اس کالج ہاسٹل میں قیام پذیر ہیںسستی تعلیم سے محروم ہو جائیں گے۔ اعلیٰ حکام جو ہر وقت غریبوں کا نام لے کر اپنی اقتدار کے دن بڑھاتے ہیں پہلے اس طرح کے اقدامات سے غریب پیدا کرتے ہیں پھر ان کی بیت المال اور بینظیر انکم سپورٹ جیسے پروگرامز کے طفیل ان کی مالی مدد کر کے ان کی تذلیل اور اپنی توقیر بڑھاتے ہیں۔ پہلے غریب سامنے لانا پھر ان کی مالی مدد کرنا یقینادنیا کاعجب فلسفہ ہے ۔ یقیناً اس طرح کی مالی معاونت کے ادارے ایسے ماحول میں اپنا جواز کھو بیٹھتے ہیں۔ پھر کمیونٹی نے یہ ادارے اس وقت قائم کئے جب یہاں برطانوی راج تھا آزادی کے بعد جب یہ ادارے قومیائے اسی وجہ سے گئے تھے تا کہ غریبوں کو سستی اور معیاری تعلیم دی جا سکے۔ آج تمام تر افراد چاہے وہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں ایک جیسی ہی سستی تعلیم حاصل کرتے ہیں مگر اب چند بڑے غریبوں کے نام پہ زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹنا چاہتے ہیں کیونکہ دنیا بھر کے پرائیویٹ تعلیمی ادارے یہی کام کرتے ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے نجی ادارے بین الاقوامی شہرت کے سائنس دان ، ماہرین تعلیم ، اداکار ، وکلائ، بیوروکریٹس اور ججز پیدا کرنے میں خاصے مفلس نظر آتے ہیں جبکہ اسی گورڈن کالج نے سرکاری تحویل کے بعد ارشد شریف، طلعت حسین ، جہانگیری، شیخ رشید، پرویز رشید، پرویز خٹک ، شاہ خاور اور راحت کاظمی جیسے عظیم سپوت پیدا کیے ۔ کالج سے نا انصافی کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب حکومت پنجاب نے اس کی زمین واقع ٹیپو روڈ پر میڈیکل کالج راولپنڈی تعمیر کیا موجودہ کیمپس کی تقریباً 21کنال زمین پر لوگوں کا قبضہ ہے اس حوالے سے ایچ ای ڈی برابر کی شریک ہے ۔ کیا خاموشی نیم رضا نہیں؟ اعلیٰ حکام بتائیں کہ ان کی موجودگی میں سرکاری کالجز کے اساتذہ کس طرح پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں خدمات سر انجام دے کر انہیں کامیاب بناتے ہیںکیونکہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے پاس اپنے وہ اساتذہ ہیں جو کہ پنجاب پبلک سروس کمیشن سے سلیکٹ نہ ہو سکے۔ ایچ ای ڈی یہ بھی بتائے کہ ہر سرکاری کالج کی طرف آنے والے ہر راستے اور چوراہے پر چند کمروں پر مشتمل پرائیویٹ تعلیمی ادارے بغیر گراﺅنڈ اور لائبریری بھاری بھرکم فیس کے ساتھ کس کی اجازت سے کام کرتے ہیں۔ کس نے اختیار اپنے پاس اس حد تک مرکوز رکھے ہیں کہ کالجز انتظامیہ ایک خاکروب کوبھی صفائی نہ کرنے پر سروس سے برخاست نہیں کر سکتی دیگر عملے کی تو بات ہی نہ کریں۔ اس حوالے سے کالجز کی ناقص کارکردگی پر نجکاری کی بجائے ایچ ای ڈی پنجاب کی نجکاری بلکہ Dissolution ہونی چاہیے۔(جاری ہے)
اس سے قوم پر بہت احسان ہوگا اور اربوں روپے بھی بچیں گے۔ ایچ ای ڈی اور حکومت پنجاب کی یہ کیسی پالیسی ہے کہ پنجاب میں نئی یونیورسیٹیز بنانے کی بجائے موجودہ کالجزکو یونیورسٹی کا درجہ دیا جا رہا ہے ۔ یہ پالیسی مری میں دو کالجز کوہسار یونیورسٹی کے نام پر کھا گئی ۔ چکوال میں گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج چکوال، راولپنڈی میں وقار النساءپوسٹ گریجویٹ کالج فارویمن اور گورنمنٹ کالج فار ویمن سکتھ روڈ کو یونیورسٹی کا درجہ دے کر غریب طلباءو طالبات کو مہنگی اور غیر معیاری تعلیم کے حوالے کر دیا ۔ راولپنڈی اسلام آباد جہاں پہلے ہی پچاس سے زائد یونیورسٹی کیمپس موجود ہیں اس طرح کا عمل انتہائی غیر معقول اورغیر مقبول ہے اور یہ پالیسی ایچ ای ڈی حکام اور تعلیمی مافیا کی ملی بھگت ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہمارے پالیسی میکرز جنرل یونیورسٹیز کی بجائے میڈیکل اور انجینئرنگ یونیورسٹیز کے قیام پر توجہ دیتے کیونکہ MDCATرزلٹ2021ہمیں بتاتا ہے کہ اس میں ایک لاکھ نوے ہزار طلباءو طالبات شامل ہوئے 65ہزار نے امتحان پاس کیا اور داخلہ صرف 20ہزار کا ہوا۔ اس وقت جب ملک می ڈاکٹرز کی شدید قلت ہے یعنی صرف 2لاکھ گویا تقریباً ایک ڈاکٹر 15سو افراد کے لیے ۔ یہی صورت حال انجینئرز کی ہے گویا ہم بیروزگاروں کی ایک بہت بڑی کھیپ تیار کر رہے ہیںمگر ہمارے پالیسی میکرز پروموشنز اور دیگر مراعات چکر میں سیاست دانوں اور عوام کے آنکھ میں دھول جھونک رہے ہیں۔
گورڈن کالج کی نجکاری کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ صدر کینٹ اور راجہ بازار جیسے مصروف گنجان آباد کاروباری مراکز کے درمیان اس طرح کا ادارہ چلانا ناممکن ہے یہاں تعلیمی ادارے سے زیادہ تجارتی مرکز کا قیام زیادہ موزوں ہے اور شائد کمیونٹی اسی وجہ سے یہ ادارہ لینا چاہتی ہے کیونکہ یہاں پر اس وقت فی مرلہ قیمت ایک کروڑ سے زائد ہے جبکہ 81کنال کیمپس کی مالیت اربوں میں بنتی ہے ۔ یہی نہیں قبضہ مافیا اس میں سے 21کنال کئی دفعہ بیچ چکا ہے۔ اور اگر معاملہ واپسی کا ہی ہے تو پھر یقیناً ہماری حکومتوں کو اس پالیسی کے تحت راولپنڈی کے متعدد تعلیمی اور طبی ادارے مثلاً گورنمنٹ حشمت علی اسلامیہ کالج، اسلامیہ اور مسلم سکولز ، ہولی فیملی ہسپتال ان کے مالکان کو واپس کرنا پڑیں گے بلکہ اس پالیسی کے تحت گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی پشاور روڈ جسے 1980کی دہائی میں میں نسٹ کا درجہ دیا پنجاب کو واپس کرنا چاہیے ؟سب سے بڑھ کر یہ کہ یونیورسٹیز اور کالجز ہمیشہ شہر سے دور پر امن کھلے ماحول میں قائم کیے جاتے ہیں ناکہ گنجان آباد علاقوں میں جس سے کئی سماجی ، معاشی اور سفری مسائل جنم دیتے ہیں۔