بیگم نجمہ حمید : سماجی اور سیاسی خدمات 


باجی نجمہ حمید مرحومہ کو راولپنڈی کی تاریخ میں نہ صرف یاد رکھّا جائے گا بلکہ ا±ن کے نام اور کام کو سنہری حروف میں لکھاّ جائے گا۔ انہوں نے ا±س وقت سماجی اور سیاسی زندگی کا آغاز کیا جب بہت کم خواتین عوامی زندگی کو اختیار کرتی تھیں۔ نجمہ حمید اور طاہرہ اورنگ زیبِ دو بہنیں ہر سماجی خدمت میں پیش پیش رہتیں ، غریبوں، بیماروں اور ناداروں کے درد کو محسوس کرتیں اور ا±ن کے مسائل کے حل کے لئے ہمہ وقت کوشاں رہتیں۔ دو نوں بہنوں کی ب±رد باری، درد مندی اور خدمتِ خلق کو دیکھ کر مولانا الطاف حسین حالی کا شعر یاد آتا ہے
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے ک±چھ کم نہ تھے کروبیاں 
 سماجی خدمات کے علاوہ نجمہ حمید نے سیاست کو نیا ر±خ دیا ا±نہوں نے مسلم لیگ میں شمولیّت اختیار کی اور پھر تا دمِ آخر اپنی جماعت سے وفا کی۔ گرم و سردِ زمانہ کا پا مردی سے مقابلہ کیا اور وہ نقشِ وفا چھوڑا جو سیاست دانوں کے لئے نشانِ منزل ہے۔ اسقامت اور استقلال نے ا±ن کو سیاست میں نہ صرف بلند مقام عطا کیا بلکہ لوگوں کے دلوں میں ا±ن کی عزّت کو دو بالا کر دیا۔ ا±ن کے سیاسی مخالفین بھی ا±ن کی شرافت، نجابت، دیانت ، فطانت اور عظمت کے قائل ہیں۔ ا±نہوں نے جنرل پرویز مشّرف کے استبدادی دور میں مشکلات و مصائیب کا جس استقامت سے مقابلہ کیا وہ بے مثال ہے۔ بقولِ مرزا غالب
وفا داری بشرطِ ا±ستواری اصلِ ایماں ہے
مرے ب±ت خانہ میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
 بیگم نواز شریف کے ساتھ عہدِ آمریّت میں شانہ بہ شانہ، دست در دست اور قدم بہ قدم کھڑے رہنا ج±وئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ محترمہ نے نہ نظریات بدلے نہ جماعت بدلی ۔ کوہِ گراں کی طرح سیلِ حوادث کا مقابلہ کیا۔ کئی سیاسی گماشتے اور روایتی سیاست دان طوطا چشم نکلے اور نئے آشیانے تلاش کر لئے مگر نجمہ حمید سر بہ کف کلثوم نواز کے ساتھ کھڑی رہیں۔ یہ وہ وفا بہ شرطِ ا±ستواری ہے جس کی مثال ہمارے سیاست دانوں میں خال خال ملتی ہے۔ اگر نجمہ حمید کو نواز شریف نے سینیٹر بنایا۔ ا±ن کی چھوٹی بہن طاہرہ اورنگ زیب کو رکن قومی اسمبلی بنایا اور مریم اورنگزیب کو دو بار وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات بنایا تو یہ بقولِ شیخ سعدی “ حق بہ حقدار رسید” کی زندہ و تابندہ مثال ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ سیاست میں ثابت قدمی اور قربانی کی قدر کرنا سیاست کو باوقار کرنا ہے۔ لوٹوں اور طوطا چشم لوگوں کو مسندِ اقتدار پر بٹھانا سیاست کو بے وقار کرنے کے مترادف ہے۔ نجمہ حمید کے شوہرِ نامدار حمید صاحب میرے والدِ گرامی تحسین جعفری مرحوم و مغفور کے پونچھ شہر مقبوضہ کشمیر میں شاگرد رہے ہیں۔ سابق وزیرِ اعظم سردار سکندر حیات اور حمید صاحب کلاس فیلو تھے اور دونوں دو قالب و یک جان تھے۔ والدِ محترم بیمار ہوئے تو ہسپتال میں سردار سکندر حیات ، برادرم حمید اور محترمہ طاہرہ اورنگ زیبِ ا±ن کی تیمار داری کے لئے تشریف لائے۔ ہمارے اِس گھرانے سے دوستانہ اور گھریلو مراسم ہیں
 نجمہ حمید صاحبہ کے انتقال کی خبر بجلی بن کر گری۔ میں نے فوراً طاہرہ اورنگ زیب کو فون کیا جنہوں نے خبر کی تصدیق کی۔ جنازے میں شرکت اور حمید بھائی سے تعزیّت کی ۔ وہاں وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات مریم اورنگ زیبِ سے بھی تعزیت کی۔ا±نہوں نے میرے استفسار پر بتایا کہ نجمہ حمید کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا وہ نہایت غمزدہ تھیں اور ا±ن کی آنکھوں سے اشک آبشار کی صورت بہہ رہے تھے۔ 
ج±وئے خ±وں آنکھوں سے بہنے دو کہ ہے شامِ فراق 
میں یہ سمجھوں گا کہ شمعیں دو فروزاں ہو گئیں 
 مرحومہ کے جنازے میں شہر کی تمام سیاسی ، ادبی اور سماجی شخصیّات نے بھر پ±ور شرکت کی۔ جنازے میں گارڈن کالج راولپنڈی کے میرے بیشتر شاگردوں سے بھی ملاقات ہوئی جن میں سابق رکن قومی اسمبلی ملک شکیل اعوان ، سابق رکن قومی اسمبلی زمرد خان ، اور سابق رکن قومی اسمبلی چوہدری ریاض آف گوجر خان سے بھی تھے ۔دوسرے دن حمید صاحب سے ا±ن کی رہائش گاہ پر جا کر دوبارہ تعزیت کی۔ وہاں سردار سکندر حیات کے فرزندِ ارجمند سردار فاروق سکندر بھی موجود تھے ۔ ا±نہوں نے بھی اپنے والدِ گرامی کے اور میرے والدِ گرامی کے حوالے سے پونچھ شہر کی باتیں کیں ۔حمید صاحب نے دورانِ گفتگو اپنے بیٹے عمر حمید سے کہا کہ وہ تصویر لائیں جو پونچھ شہر کے اسکول کی ہے۔ وہ تصویر لائے جس میں میرے والدِ گرامی بحیثیتِ استاد موجود ہیں اور سردار سکندر حیات، حمید صاحب، سابق چیف جسٹس سردار اقبال بھی موجود ہیں۔ نجمہ حمید غریب نواز تھیں ۔ جہاں ا±ن کے جنازے میں وزرا، اور مشاہیرِ شہر شریک ہوئے وہاں عوام اور غریبوں کی شرکت اِس بات کی غمّاز ہے کہ وہ عوام کے دلوں میں بستی تھیں اور عوام کے دلوں میں بسنے والے مرتے نہیں بلکہ امر ہو جاتے ہیں۔ 
مرنے والوں کی جبیں روشن ہے اِس ظلمات میں 
جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں
 

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...