جب 1979ء کا الیکشن ہوا تو شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کو مجموعی طور پر اکثریت حاصل ہوئی تھی لیکن سیاستدانوں نے اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کو اقتدار دینے کے بجائے اقلیت کو مسلط کرنے کی کوشش کی جس پر پاکستان دولخت ہوگیا۔ ہمیں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا ہوگا۔ بھٹو صاحب کا ٹرائل ہوا اور ایسے کیس میں انھیں سزائے موت سنادی گئی جس میں اس قدر سخت سزا بنتی ہی نہیں تھی اور سزا دینے کا طریقہ کار یہ تھا کہ 9 رکنی بنچ تھا جس میں سے 2ججز کا تعلق سندھ اور 2ججز کا تعلق خیبرپختونخوا سے جبکہ 5 جج صاحبان کا تعلق پنجاب سے تھا اور اس بنچ کے پنجاب سے تعلق رکھنے والے ججوں نے بھٹو صاحب کو سزائے موت دی جبکہ سندھ اور خیبرپختونخوا کے ججوں نے اس کی مخالفت کی لیکن اکثریت کی بنیاد پر فیصلہ تسلیم ہوا۔ کیا اس قدر اہم ترین شخصیت کے متعلق اہم ترین کیس پر فل کورٹ نہیں بنایا جاسکتا تھا؟ بعد میں مرحوم چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے ایک انٹرویو میں اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ بھٹو صاحب کا عدالتی قتل کیا گیا ہے اور یہ فیصلہ ہم سب ججوں نے ضیاء الحق کے دباؤ پر دیا تھا۔ اب بھٹو صاحب پر صدارتی ریفرنس کی سماعت خوش آئند ہے لیکن کیا اس سے ایک عظیم قومی رہنما اور مسلم دنیا کے نڈر لیڈر کے عدالتی قتل کا ازالہ ممکن ہے؟ کیا اب مجرموں کی قبروں کا ٹرائل ہوگا؟ بھٹو صاحب جیسے لیڈر صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں جنھوں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی، اسلامی سربراہی کانفرنس لاہور منعقد کرکے مسلم دنیا کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے مضبوط مسلم بلاک کے قیام کی جانب تیز پیشرفت کا آغاز کیا۔ بھٹو صاحب نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا اور ساتھ ہی ساتھ ملک کو متفقہ آئین بھی دیا۔
پیپلزپارٹی نے اس عدالتی قتل کے باوجود اداروں اور ملک کی سالمیت کے خلا ف کبھی کوئی کام نہیں کیا۔ پیپلزپارٹی نے ہمیشہ آئین و قانون کے مطابق کام کرنے کی بات کی ہے اور اداروں کو اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر قانونی و آئینی تقاضو ں کے مطابق فیصلے کرنے کی بات کی گئی ہے۔ پیپلزپارٹی کے ساتھ بھٹو صاحب کے عدالتی قتل کے بعد بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے پر بھی سپریم کورٹ نے صدر غلام اسحاق خان کے حکومت کی برطرفی کے فیصلے کو درست قرار دے کر امتیازی سلوک کیا جبکہ 2-3سال بعد ہی جب میاں نوازشریف کی حکومت کو صدر غلام اسحاق خان نے برطرف کیا تو ان کی حکومت کو سپریم کورٹ نے بحال کردیا۔ یہ الگ بات کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے باوجود میاں نوازشریف اور صدر غلام اسحاق خان کو ایک ساتھ اقتدار سے علیحدہ ہونا پڑا۔غلط فیصلوں کے ذکر کا مقصد صرف یہی ہوتا ہے کہ ہم ماضی سے سبق سیکھیں۔
میاں نوازشریف کو پانامہ لیکس کی آڑ میں اقامہ پر نکالنے کا فیصلہ بھی غلط تھا اور اس بارے میں بار بار لکھتا ہوں کہ اگر پانامہ لیکس میں سینکڑوں پاکستانیوں کی غیر ملکی جائیدادں کا ذکر تھا تو سب کا ٹرائل کیا جاتا لیکن صرف میاں نوازشریف اور ان کی فیملی کا ٹرائل کرکے پھر سزا ’اقامہ‘ پر دی گئی جس سے انصاف ہوتا ہوا نظر نہیں آیا۔یہ تمام معاملات ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ ہیں اور ان تمام واقعات نے ملک پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں جس کے باعث آج وطن عزیز موجودہ حالات سے دوچار ہے۔
اب موجودہ دور میں عمران خان کو توشہ خانہ سمیت سینکڑوں کیسز بناکر جیل میں قید کیا گیا ہے۔ تحریک انصاف کے جو لوگ پریس کانفرنس کرکے پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کررہے ہیں، انھیں گھر جانے دیا جارہا ہے جبکہ پارٹی سے وابستگی برقرار رکھنے پر بضد لیڈروں کو پابند سلاسل کیا گیا ہے اور جو کوئی بھی تحریک انصاف کا نام لے کر نکلتا ہے، اس پر کیسز بناکر جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ تحریک انصاف کے قائد کا ٹرائل جیل میں کیا جارہا ہے حالانکہ ان کا مطالبہ ہے کہ ان کا اوپن کورٹ میں میڈیا کے سامنے ٹرائل ہونا چاہیے۔ ان کا یہ مطالبہ درست ہے اور اگر ان کے خلاف درست کیسز بنائے گئے ہیں تو پھر ان کا اوپن کورٹ ٹرائل ہونا چاہیے جہاں میڈیا بھی ہو۔ اگر سکیورٹی وجوہات کے باعث انھیں اوپن کورٹ نہیں لایا جاسکتا تو میڈیا کو جیل میں لے جاکر ان کی سماعت کی مناسب کوریج کرائی جائے تاکہ معاملات کی شفافیت نظر آئے۔
ماضی میں انتخابات، ان کے نتائج اور حکومتوں کی تشکیل کے معاملات میں بھی ہماری تاریخ کسی بھی طرح سے قابل تعریف نہیں ہے اور ہمارے سیاستدان ہی اس سیاہ تاریخ کے خود دذمہ دار ہیں۔ اب 2018ء کے انتخابات سے قبل جب پانامہ لیکس کی آڑ میں نوازشریف فیملی کو اقتدار و سیاست سے الگ کرنے کی مہم جاری تھی تو اس وقت عمران خان نے غلط طرز عمل سے مخالف سیاستدان کو بے اثر کیے جانے پر کوئی احتجاج نہیں کیا حالانکہ حق تو یہی بنتا تھا کہ آپ پانامہ کی آڑ میں اقامہ پر نکالے جانے پر احتجاج کرتے اور مطالبہ کرتے کہ میاں نوازشریف کو سیاست کرنے اور الیکشن لڑنے کی کھلی آزادی دی جائے اور ہم ایک دوسرے سے فتح و شکست کا فیصلہ سیاسی میدا ن میں کریں گے۔ لیکن 2018ء میں غلط طرز عمل سے نوازشریف کو بے دخل کئے جانے پرمجرمانہ خاموشی اختیار کرنا ایسی غلطی تھی جس کی سزا آج وہ خود بھگت رہے ہیں۔
اب عمران خان کے سیاسی مخالفین میں اتنی اخلاقی جرات ہونی چاہیے کہ وہ مطالبہ کریں کہ عمران خان کا منصفانہ ٹرائل کرکے جلد فیصلے سنائے جائیں تاکہ آئندہ الیکشن مہم تک وہ عوام میں ہوں اور ہم تمام سیاستدان یکساں ماحول میں عوام کے پاس جاکر اپنا منشور بیان کریں اور پھر عوام کی مرضی کہ جسے چاہیں منتخب کریں۔ملک کے معاشی و سیاسی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ الیکشن منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ہونے کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف سمیت تمام جماعتوں کو یکساں میدان ملنا چاہیے اور یہ طرز عمل ختم ہونا چاہیے کہ جو کوئی بھی تحریک انصاف کا نام لے، اسے پابند سلاسل کردیا جائے۔ الیکشن کی شفافیت کے لیے ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو سیاست کرنے کی مکمل آزادی دی جائے۔
ماضی کی اداروں اور سیاستدانوں کی چیدہ چیدہ غلطیاں درج کرنے کا مقصد یہ ہے کہ تمام سیاستدانوں نے ماضی میں کوئی اچھا کردار ادا نہیں کیا اور ملک کے موجودہ معاشی حالات میں کوئی ایک تنہا سیاسی جماعت بھی ملک کو سیاسی و معاشی استحکام نہیں دلاسکتی۔ اسی لیے ضروری ہے کہ آئندہ الیکشن کے بعد 5سال کے لیے قومی حکومت قائم کی جائے۔ 5سال کی قومی حکومت کے قیام کامقصد سب سے پہلے تو معیشت کی بہتری ہو۔ اس کے علاوہ کرپشن پر سزائے موت کے قانون کی منظوری، انتخابی، عدالتی و انتظامی نظام میں تبدیلی، نئے انتظامی صوبوں کا قیام اور اختیارات و وسائل کی نچلی سطح تک تقسیم کرکے عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل کرنے کے لیے مناسب ترین فریم ورک کی فراہمی اور انصاف کے نظام میں انقلابی تبدیلی لاکر ہر شہری کے لیے انصاف کے حصول کے یکساں اور تیز تر مواقع کی فراہمی ہونی چاہیے۔