سوشل میڈیا اور ہم 

رواں صدی کے آغاز تک عالمی آبادی کی غالب اکثریت سوشل میڈیا کے نام سے بھی واقف نہیں تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ اتنا اہم ہوچکا ہے کہ اب یہ صرف افراد کے باہمی تعلقات کو فروغ دینے تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ دنیا بھر کے سیاسی رہنما، حکومتیں، تنظیمیں اور ادارے اسے ایک پروپیگنڈا ٹول کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور تمام اہم بیانات وغیرہ بھی اسی کے ذریعے جاری کیے جاتے ہیں جنھیں پھر اخبارات و جرائد، ٹیلیویژن اور معلومات کے دیگر ذرائع وہاں سے لے کر لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔ افراد کے حوالے سے بات کی جائے تو سوشل میڈیا کی مقبولیت کا دائرہ اب صرف نوجوانوں تک ہی نہیں رہا بلکہ ہر عمر کے افراد اپنی دلچسپی کے کاموں کے لیے اسے استعمال میں لاتے ہیں۔ اسی طرح، تحقیق، تدریس، تربیت اور ایسے ہی دیگر کاموں کے لیے بھی اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔
اس کالم میں فیس بک پر راقم کے لکھے گئے کچھ اظہاریے ایک خاص ترتیب سے پیش کیے جارہے ہیں جن کے یہاں پیش کیے جانے کا مقصد بھی وہی ہے جس کے تحت یہ فیس بک پر لکھے گئے تھے، یعنی اپنے دل کی بات دوسروں تک پہنچا دی جائے اور اگر کوئی یہ سب پڑھ کر کچھ سیکھ لے تو میں سمجھوں گا کہ چراغ سے چراغ جل گیا۔ سب سے پہلے یہاں وہ اظہاریہ پیش کیا جارہا ہے جو سوشل میڈیا کے مثبت استعمال سے متعلق میرے ذاتی تجربے کے بارے میں ہے:
’’میں نے دو روز پہلے مون مارکیٹ اقبال ٹاؤن لاہور میں واقع پولیس خدمت مرکز کے ایک بورڈ کی تصویر فیس بک پر لگائی جس پر واش روم کا بینر لگا ہوا تھا۔ اگلے ہی دن وہ بینر اتار دیا گیا۔ اسی طرح چند مہینے قبل میں نے پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی ایک کتاب میں پائی جانے والی ایک فاش غلطی کی نشاندہی کی تو اسی روز بورڈ نے ایک نوٹیفیکیشن جاری کرتے ہوئے اس کتاب پر پابندی لگا دی اور مبینہ طور پر ناشر کے گودام سے تمام کتابیں ضبط کر لی گئیں۔ یہ دو واقعات میرے ذاتی تجربے سے متعلق ہیں، یقینا ایسی اور بھی بے شمار مثالیں ہوں گی جن سے پتا چلتا ہے کہ سوشل میڈیا کی سرکاری دفتروں تک نہ صرف رسائی ہے بلکہ اس کی مدد سے کچھ نہ کچھ بھی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ اگر ہم قابلِ تعداد میں ایسے افراد تیار کر سکیں جو سوشل میڈیا کو مثبت تبدیلیوں کے لیے ایک ذریعے کے طور پر استعمال کریں تو ملک اور سماج میں واقعی بہتری لائی جاسکتی ہے۔‘‘ (6 اکتوبر، 2023ء)
اگلے دو اظہاریوں میں سوشل میڈیا کے استعمال کے بارے میں میری رائے بھی موجود ہے اور ذاتی تجربے سے متعلق ایک اور واقعہ بھی:
’’سوشل میڈیا بڑی مفید شے ہے بشرطیکہ آپ اسے ٹھیک طریقے سے استعمال کریں۔ لسانیات میری دلچسپی کے موضوعات میں سے ایک ہے اور مجھے اس سے متعلق بہت سی کتابیں فیس بک کی مدد سے ملیں۔ بھارت سے شائع ہونے والی ایک کتاب* جسے میں کئی مہینوں سے تلاش کررہا تھا وہ آج مجھے ملی، اور ملی یوں کہ میں نے لنگوئسٹکس لائبریری نامی گروپ میں ایک پوسٹ لکھی کہ یہ کتاب درکار ہے، چند ہی گھنٹے میں ایک صاحب نے پی ڈی ایف کی شکل میں کتاب مہیا کردی۔‘‘ (29 نومبر، 2023ء)
* Language Policy and Education in India: Documents, Contexts and Debates, by M. Sridhar and Sunita Mishra
’’اپنے بچوں کو زندگی کے بارے میں مثبت باتیں اور رویے سکھانے کے عمل سے لوگوں کی غالب اکثریت نے اپنا حصہ نکال لیا ہے اور اس وجہ سے جو خلا پیدا ہوا ہے اسے مین سٹریم اور سوشل میڈیا پُر کررہے ہیں۔ جب ہم اپنی عائلی، سماجی اور اخلاقی ذمہ داریاں ٹھیک طریقے سے ادا کرتے ہوئے اپنے بچوں کو رشتوں اور اشیاء کی ضرورت اور اہمیت کا حقیقی مفہوم نہیں سمجھا رہے تو پھر بچے جو کچھ مین سٹریم اور سوشل میڈیا پر دیکھ رہے ہیں اس کے مطابق ڈھلتے جارہے ہیں، اس صورتحال میں ہمیں نظامِ اقدار کی شکست و ریخت اور غیر مانوس سماجی تبدیلیوں سے متعلق گلہ شکوہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔‘‘ (21 مئی، 2023ء)
آخری اظہاریے میں ہمارے منفی رویے پر تنقید بھی کی گئی ہے اور ساتھ ہی یہ واضح کرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے کہ سوشل میڈیا کا غلط یا منفی استعمال لوگوں پر کیسے اثر انداز ہوتا ہے:
’’سوشل میڈیا ایک عفریت ہے جو صرف آپ کا وقت، توانائی اور دماغ ہی نہیں کھاتا بلکہ لوگوں کی عزت و ناموس اور بعض صورتوں میں کیرئیر اور زندگی تک کھانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ بس کرنا یہ ہے کہ آپ کوئی بھی بات کسی کے خلاف لکھ دیجیے یا کوئی اوٹ پٹانگ ویڈیو بنا کر لگا دیجیے اور پھر تماشا دیکھیے۔ ہم پاکستانی تو ویسے ہی کسی بھی بات کو بغیر تصدیق کیے پھیلانا ثواب کا کام سمجھتے ہیں، لہٰذا ہم لوگوں کی سوشل میڈیا تک رسائی بندر کے ہاتھ میں ماچس کے مصداق ہے۔‘‘(28 مئی، 2021ء)

ای پیپر دی نیشن