ر  حمت شاہ آفریدی: ایک بڑیآدمی کی رحلت

رحمت شاہ آفریدی کا74برس کی عمر میں انتقال ہوا۔ ایک انگریزی اخبار کے مالک ایڈیٹر تھے۔ پشاور سے اردو اخبار بھی  نکالا۔ انگریزی اخبار  ان کی پہچان بنا۔ ان کی زندگی کے کئی پہلو نمایاں اور کچھ مخفی بھی تھے۔ بڑے دولت مند تھے۔ ان پر ہیروئن کے کاروبار یا سمگلنگ کا الزام لگتا رہا۔ ان سے میاں نواز شریف کے دوسرے دور میں بیس کلو ہیروئن بر آمد ہونے کا الزام لگا۔ ٹرائل ہوا جس میں ان کو سزائے موت دی گئی۔ کم وبیش 9سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہے۔ ہائی کورٹ نے سزائے موت کو عمر قید میں بدلا پھر ان کی رہائی ہوگئی۔
بڑے دولتمند تھے۔ وہ ہر خواہش پوری کر سکتے تھے جو پیسے سے ہو سکتی ہو مگر وہ  ایک فلم بنانا چاہتے تھے جو نہ بنا سکے۔ ان کی زندگی کے مخفی گوشوں میں ان کا افغان اور کشمیر جہاد میں حصہ لینا شامل ہے۔
میری رحمت شاہ آفریدی سے دو ملاقاتیں ہوئیں۔ اپریل2016ء￿ میں چند دن کے وقفے سے ان سے دو مرتبہ ملا تھا۔ میں نوائے وقت ایڈیٹوریل میں تھا۔ موت سے زندگی کی طرف کتاب ترتیب دے رہا تھا۔ جس میں ان لوگوں کے واقعات درج کرنے تھے جو موت کو بہت قریب سے دیکھنے کے دعویدار تھے۔ سلیم بخاری صاحب نیشن کے ایڈیٹر تھے، ان کے توسط سے آفریدی صاحب سے ملاقات ہوئی۔ان کا آفس نوائے وقت کے پرانے اور نئے آفس والی شارع پر لارنس روڈ سے متصل بابا عنایت شاہ کے مزار کے قریب تھا۔ وہ اپنی والدہ کے بڑے خدمت گزار تھے۔ وہ بھی وہیں چیئر پر موجود تھیں۔ بعد میں رحمت شاہ آفریدی کے ایک صاحبزادے جلیل آفریدی کے ساتھ صحافیوں کے وفد میں دبئی جانے کا اتفاق ہوا۔ اس دوران وہ  اپنے والد کے بارے بتاتے رہے۔ وہ اپنے اخبار  کے ایڈیٹر کے طور پر دبئی گئے تھے۔
رحمت شاہ نے اپنے بارے میں اس ملاقات میں انکشافات کئے اور لرزا دینے والے واقعات بھی بتائے۔انکی زبانی سنیئے:۔ مجھے 20 کلو منشیات کے کیس میں سزائے موت ہوئی۔ میں نے رحم کی اپیل نہیں کی۔ بے نظیر بھٹو مجھ پر اعتماد کرتی تھیں۔ 90ء￿ میں ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی جو میں نے ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ 17 ایم این ایز کی ضرورت تھی۔ فاٹا کے 8 میں سے 7 میں نے بے نظیر بھٹو کے ساتھ کھڑے کر دیئے۔ بے نظیر بھٹو پریشان تھیں۔ خاص الخاص لیڈروں سے بات کی تو مایوسی ہوئی۔ میری طرف محترمہ نے دیکھا تو میں نے کہا فکر نہ کریں۔ نواز شریف ممبران کو خرید نہیں سکیں گے۔ یہ پیسہ لگانے والے نہیں، پیسہ بنانے والے ہیں۔ آپ پیسوں کی فکر نہ کریں۔ بالآخر تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی۔میں نے بینظیر بھٹو کا ساتھ محض ان کو مظلوم سمجھ کر دیا۔ نواز شریف اقتدار میں آئے تو مجھ سے کہا گیا کہ میں بیان دوں کہ بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری ڈرگ کے کاروبار میں میرے پارٹنر ہیں۔ میں نے صاف انکار کر دیا۔ ان کی طرف سے 50 کروڑ روپے اور چار پلاٹوں کی آفر کی گئی مگر میں جھوٹ بولنے پر تیار نہ ہوا تو ایجنسی کے لوگ گھر چلے آئے۔ بیان کیلئے دبا? ڈالا۔ میرے انکار پر کہا گیا انکار کرتے ہو تو مرنے کے لئے تیار ہو جا?۔ غسل کر کے کپڑے بدلنے کیلئے آدھا گھنٹہ دیا۔اس وقت بھی میرے سامنے 25کروڑ روپے رکھے ہوئے تھے۔ تیار ہونے پر مجھے گاڑی میں بٹھا یا۔ آنکھوں میں پٹی باندھ کرلے گئے۔ کہیں گاڑی کھڑی کر کے ہوائی فائرنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ انہوں نے باور کرایا آخری بار سوچ لو۔ میں سچ کی خاطر مرنے کیلئے تیار تھا تاہم یہ لوگ مجھے واپس لے آئے۔
 منشیات کیس میں سزائے موت ہوئی۔ سزا سنانے والی عدالت نے مجھے سنا ہی نہیں۔ اپیل پر سزائے موت عمر قید میں بدل گئی اور بعد میں رہا کردیا گیا۔ میں کیمپ جیل میں تھا۔ مجھے زیادہ سے زیادہ اذیت دینا مقصود تھا۔ مجھے قید تنہائی میں رکھا گیا۔ اپنی دانست میں مزید اذیت کیلئے سپاہ محمد سے تعلق رکھنے والے قیدیوں کے ساتھ دن کو بند کر دیاجاتاتھا۔ اس لئے کہ میں سنی ہوں اور شیعہ مجھے برداشت نہیں کر سکیں گے۔ مگر وہاں میرے ساتھ سلوک اس کے برعکس ہوا۔ انہوں نے مجھے ایسے رکھا جیسے ہم ایک ہی ماں کے بیٹے ہیں۔ میرے لئے کاغذ اور قلم رکھنے کی پابندی تھی۔ ایک روز میرے سیل میں ایک تہہ شدہ کاغذ ملا۔ کھول کر دیکھا تو لکھا تھا ’’میں آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ آپ کو پولیس مقابلے میں مارنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔اس پر ۵ ستمبرکو عمل ہوگا‘‘ میں نے اس رقعے کو سنجیدہ نہیں لیا تاہم ایک دن سرسری انداز میں سپاہ محمدکے شاکر نقوی سے تذکرہ کر دیا۔ وہ بڑے پریشان ہوئے۔ انہوں نے کہا’’ تم سیل نمبر 11میں بند ہو یہاں سے کوئی زندہ واپس نہیں گیا۔ اس رقعے کو سنجیدہ لو اور اپنے بچا? کی تدبیر کرو۔‘‘ میں نے کہا ’’یہاں کیا تدبیر کر سکتا ہوں‘‘۔
’’ آپ خط میں اپنے بیٹے یا کسی رشتہ دار کو عدالت سے رجوع کرنے کا کہو کہ جیل حکام کسی صورت آپ کو ایجنسیوں کے حوالے نہ کریں۔‘‘
 ان کے اس مشورے پر میں نے کہا ’’میرا خط ان تک کیسے پہنچے گا۔‘‘
’’آپ فکر نہ کریں آپ لکھیں پہنچا ہم دینگے۔‘‘
 میرے خط پر جسٹس افتخار حسین نے نوٹس لیا،ان کے بھائی الطاف حسین سابق گورنرپنجاب تھے۔یوں میں یقینی مقابلے میں مارے جانے سے بچ گیا۔
میں لشکر طیبہ کے ساتھ کشمیر جہاد میں بھی حصہ لے چکا ہوں۔ جہاں میں بھوک سے مرتے مرتے بچا تھا۔ ہم مجاہدین کو ایک گا?ں میں محصور ہونا پڑا۔ تین دن تک کھانے پینے کو کچھ نہ ملا۔ پھر یوں سمجھیں خدا کی طرف سے مدد آ گئی۔ یہ گا?ں ہزاروں فٹ کی بلندی پر تھا۔ جہاں آنے سے پہلے چھ سات کلومیٹر دور اور نیچے ایک گھر میں ٹھہرے تھے۔ ان کی ایک بیٹی پلواشہ تھی۔ اسے کشمیر کاز سے محبت اور دلچسپی تھی۔ گھر میں ہمارے محصور ہونے کی باتیں ہوتی تھیں۔ پلواشہ نے یہ باتیں سن کر کسی کو بتائے بغیر گھر میں کھانے پینے کی جو بھی چیز یں تھیں اپنے کتے کے گلے میں باندھیں اور خطرہ مول لیتے ہوئے ہمارے پاس پہنچ گئی۔ اس کی آمد رحمت کے فرشتے کی آمد سے کم نہ تھی۔ وہ کھانے کا سامان نہ لاتی تو ہم لوگ جو نقاہت اور کمزوری کی آخری حدوں کو چھو رہے تھے۔جلد خالق حقیقی سے جا ملتے۔ وہ اگلی صبح تک وہاں رہی۔ واپسی پر بھارتی فوج نے پکڑ لیا۔میں بعد میں اس کے والدین سے ملا۔ان کے مطابق بھارتی فوجیوں نے اس سے پوچھا کہاں گئی اور کیوں گئی تھی۔اس نے کہا بکریاں گم ہوگئی تھیں ان کو تلاش کررہی تھی۔ اسے بدترین اور انسانیت سوزتشدد کا نشانہ بنایا گیا مگر وہ پلواشہ سے کچھ بھی نہ اگلوا سکے۔ اسے 7 سفاک فوجیوں نے ریپ کیا مگر بے سود۔ بالآخر اسے شہید کر دیا گیا۔ پلواشہ میری زندگی کا سب سے بڑا کردار ہے۔ اس کا کردار اس ملالہ سے کسی طور پر کم نہیں جس نے پٹھانوں کو متحد کر کے انگریزوں کے خلاف لڑنے پر آمادہ کیا اور فتح حاصل کی۔ میں اسے فلسطین کی لیلیٰ خالد جیسی حریت پسند سمجھتا ہوں۔جسے کشمیر کاز کی خاطرجہاد کے لئے آنیوالوں کو بچانے کے لئے اپنی جان اور ناموس قربان کرنا پڑی۔ میں اس پر فلم بنانے کا ارادہ رکھتا ہوں۔‘‘پلواشہ کا ذکر کرتے ہوئے رحمت شاہ جذباتی ہوئے چلے جارہے تھے۔

فضل حسین اعوان....شفق

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...