پاکستان کے نگران وزیر تجارت گوہر اعجاز کہ سربراہی میں چوٹی کی کاروباری شخصیات اور صنعتکاروں کے وفد کے دورہ چین میں دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں میں شامل اور دوست ہمسایہ ملک کی جانب سے حکومت پاکستان کی موجودہ دو طرفہ آزادانہ تجارتی معاہدے (ایف ٹی اے) میں ترمیم کرنے کی تجاویز پر غور کیا گیا۔
وفاقی وزارت تجارت کے مطابق ان زیر غور نکات میں تجارتی مقاصد کے لیے چینی کرنسی یوآن میں مالیات کی فراہمی اور چینی فرموں کی پاکستان منتقلی میں مدد کے لیے قرض دینا بھی شامل ہے۔واضح رہے کہ چین پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اقوام متحدہ کے کوم ٹریڈ ڈیٹا بیس کے مطابق، 2022 میں، پاکستان کی چین کو برآمدات 2.53 ارب ڈالر ریکارڈ کی گئیں جبکہ چین کی پاکستان کو برآمدات 23.09 ارب ڈالر تھیں۔دو طرفہ تجارتی معاہدے میں بہتری کی تجاویز چین کے جاری دورے کے دوران سامنے آئیں جن کے تحت ایف ٹی اے کی مجوزہ نظرثانی کا مقصد پاکستانی مصنوعات کے لیے ترجیحی برتاؤ میں توسیع اور انہیں چین اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی 10 رکنی تنظیم آسیان کے درمیان ایف ٹی اے کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہے۔ اس معاہدے پر 2010 میں دستخط کیے گئے، جس سے ہزاروں درآمدی اشیا پر ٹیرف کو صفر کر دیا گیا تھا۔وفاقی وزارت تجارت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان نے ہمسایہ ملک پر زور دیا ہے کہ وہ چینی کمپنیوں کو صنعتی یونٹس کی پاکستان کے خصوصی اقتصادی زونز (SEZ) یا ایکسپورٹ پروسیسنگ زونز (EPZ) میں منتقلی کے لیے سرمایہ کاری کے لیے پانچ ارب یوآن کی رقم مختص کرے۔ اس کے علاوہ، امریکی ڈالر پر انحصار کم کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر تجارتی مالیات کی فراہمی کے لیے بھی پانچ بلین یوآن مختص کئے جائیں۔پاکستان اور چین کے درمیان ٹیکسٹائل کی تجارت کو تقویت دینے کے لیے گذشتہ روز، نگران وزیر گوہر اعجاز نے چائنا چیمبر آف کامرس فار امپورٹ اینڈ ایکسپورٹ آف ٹیکسٹائل (CCCT) کے چیئرمین زینگ زنمن سے ملاقات کی۔پاکستانی وفد نے گفت شنید میں تجارتی عدم توازن کو کم کرنے پر توجہ مرکوز کی۔ اس کے علاوہ بات چیت میں پاکستانی برآمدات کو فروغ دینے اور تجارتی لین دین کو آسان بنانے کے لیے چین میں نئی منڈیوں تک رسائی کی حکمت عملی شامل تھی۔پاکستانی وفد نے براہ راست کاروباری (B2B) روابط کے طور پر اجلاس بھی منعقد کئے، جس میں پاکستانی اور چینی تاجروں کے مابین تجارتی تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے بات چیت کو آگے بڑھایا گیا۔