شاہ نواز سیال
بھارت میں مساجد کو مندر قرار دینے اور ہر مسئلہ کو فرقہ پرستی کا رنگ دینے ک خطرناک رحجان بڑی تیزی سے بڑھتا جارہا رہا ہے۔ اس سلسلے میں بھارت کے نامور سینئر وکیل اور بھارتی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور ہیومن رائٹس کمیشن آف بھارت کےرہنماوں نے ایک انٹرویو کے دوران میں فرقہ پرستوں اور بھارت کے عوام کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے والوں کو شرم دلانے کی بھرپور کوشش کی حتی کہ یہاں تک کہا کہ بھارت کے موجودہ حالات تیزی سے تباہی کی طرف جارہے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت اب اقلیتوں کے حوالے سے پر امن ملک نہیں رہا حالات گھمبیر سے گھمبیر تر ہورہے ہیں مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو شہید کر کے مندوں میں تبدیل کیا جارہا ہے جو ایک الارمنگ صورت حال ہے - انگریزوں کے دور سے مقابلہ کرنے والے سیکولر لوگ اب شدت پسند ہندو تنظیموں کے ہاتھوں بے بس دکھائی دیتے ہیں مودی حکومت جمہوریت و سیکولرازم کو تباہ کرنے میں مصروف عمل ہے
ایسے میں ہم اپنے قارئین کیلئے بھارت میں موجود ہیومین رائٹس کمیشن کے رہنماوں کے انٹرویو سے کچھ اقتباسات کا ذکر کرتے ہیں- سب سے اہم بات جو ہیومین رائٹس کمیشن کے راہنماوں نے کہی وہ یہ ہے کہ مساجد کے سروے کی اجازت دے کر سابق چیف جسٹس آف بھارت مسٹر وائی چندرا نے ہندوستان کے دستور اور ہندوستان سے بڑی نا انصافی اور غداری کی ہے جس کے منفی اثرات مہاراشٹر انتخابات کے دوران دکھائی دیےجب ووٹ مذہب کے نام پر مانگے گئے-
جب ہیومین رائٹس کمیشن آف بھارت کے رہنماوں سے یہ سوال کیا گیا کہ آج پورے بھارت میں اس بات کا احساس پایا جاتا ہے کہ صدیوں قدیم مساجد کی جگہ مندر ہونے کے دعوے کرنے والوں نے محکمہ آثار قدیمہ اور عدالتوں سے مسلسل اجازت مانگ رہے ہیں
حالیہ عرصہ کے دوران ریاست اترپردیش کے تاریخی شہر سنبھل اور راجستھان کے شہر اجمیر میں ایسا ہوا ہے جبکہ اس سے قبل اترپردیش کے وارانسی ، متھرا اور مدھیہ پردیش کے دھار میں ایسا ہوا ہے ان حالات میں کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ جسٹس چندرا نے مئی 2022 میں جو فیصلہ دیا وہ موجودہ سنگین حالات و صورتحال کیلئے ذمہ دار ہے اگر مسٹر چندرا اس کیلئے ذمہ دار ہیں تو کیا آپ وضاحت کرسکتے ہیں ؟ اس تفصیلی سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ حالیہ عرصہ کے دوران یہ دیکھا گیا ہے کہ بھارت کے طول و ارض میں صورتحال دن بہ دن سنگین ہوتی جارہی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ Places of Worship Act 1991 ( عبادت گاہوں کے قانون 1991 ) میں یہ واضح طور پر کہا گیا ہے کہ 15 اگست 1947 میں عبادت گاہوں چاہے وہ کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کی عبادت گاہ ہو ان کا موقف جوں کا توں رہے گا ان کے موقف میں کسی بھی قسم کی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔
بھارتی سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے جس میں جسٹس چندرا بابری مسجد رام جنم بھومی کیس میں شامل تھے واضح طور پر کہا تھاکہ عبادت گاہوں کے قانون 1991 کے دو پیمانے ہیں ایک یہ کہ 15 اگست 1947 کو موجود ہر مذہبی مقام کا تحفظ کرنا دوسرا انہوں نے دفعہ 4 ذیلی دفعہ 2 کی تشریح کی کہ کسی بھی مذہبی مقام کے کردار کو بدلنے کیلئے کوئی نیا مقدمہ ، اپیل یا کارروائی نہیں ہوسکتی اور ہاں ایک ایکٹ کی دفعہ 5 کے ذریعے رام جنم بھومی بابری مسجد کو مستثنی قرار دیا تھا کیونکہ یہ مقدمہ اور تنازعہ 1947 سے پہلے ہی زیرالتواءتھا۔
بھارتی سپریم کورٹ نے پر زور انداز میں کہا تھا کہ یہ ایکٹ آئین میں فراہم کردہ بنیادی حقوق کا تحفظ کرتا ہے بھارتی سپریم کورٹ کے مطابق یہ قانون سیکولرازم قائم کرنے کیلئے ریاست کی ذمہ داری ہے اس نے یہ بھی کہا کہ تاریخی غلطیوں کو لوگوں کے ذریعہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر درست نہیں کیا جاسکتا یہ تمام بھارتی سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے الفاظ ہیں جس میں ڈی وائی چندرا بھی شامل تھے دلچسپی کی بات یہ ہےکہ الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شرما جنہوں نے بابری مسجد رام جنم بھومی کا فیصلہ دیا تھا اپنے فیصلہ میں تبصرہ کیا تھا کہ یہ قانون دوسری عبادت گاہوں کے سلسلے میں نئی کارروائی یا نئے مقدمہ کو نہیں روکتا لیکن دستوری بینچ نے ا±س نتیجہ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ مکمل طور پر غلط ناقص اور دفعہ 4 ذیلی دفعہ 2 کے مغائر اور خلاف ہے جس میں صاف طور پرکہا گیا ہے کہ مستقبل میں کسی نئی عبادت گاہ کیلئے کوئی مقدمہ یا کارروائی نہیں ہوسکتی۔
ایسے میں اب اگر آرٹیکل 141 کی بنیاد پر یہ بھارت کا قانون ہے تو اس دفعہ کے باعث ہر کوئی عاملہ ، مقننہ یہاں تک کہ عدلیہ بشمول بھارتی سپریم کورٹ اس قانون کا پابند ہے اس لئے مجھے یہ انتہائی چونکا دینے والا لگتا ہے کہ جب گیان واپی مسجد کا معاملہ منظر عام پر آیا اور جب مسلمانوں کی طرف سے دائر مقدمہ کو خارج کرنے کی التجا کی گئی ماتحت کی عدالت اور ہائیکورٹ نے خارج کردیا لیکن جسٹس چندرا نے کارروائی جاری رکھنے کی اجازت دی یعنی محکمہ آثار قدیمہ کی کارروائی جاری رکھنے کی اجازت دی اس کا صاف صاف مطلب یہ تھا کہ ان کی جانب سے اے ایس آئی کی کارروائی جاری رکھنے کی اجازت دینا دراصل خود جسٹس چندرا کے اپنے ہی فیصلے کی چونکا دینے والی خلاف ورزی تھی جس مسجدوں کے نیچے مندر ہونے اور مساجد کے مندر ہونے سے متعلق دعووں کا پٹارہ کھل گیا۔
اگر جسٹس چندرا اس دن یہ کہتے کہ کچھ نہیں ہوگا کوئی اور کارروائی نہیں ہوسکتی کوئی اور کارروائی قبول نہیں کی جائے گی اور ہم حکم دیتے ہیں کہ ملک کی کوئی عدالت ایسی کارروائی قبول نہیں کرے گی کیونکہ وہ سیاستدانوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے تھے مطلب مودی اور شدت پسند بی جے پی رہنما اور مجھے تو یہ بات بہت زیادہ حیران کرتی ہے کہ مسٹر چندرا چوڑ ساری دنیا میں ہندوستانی سیکولرازم جمہوریت کے دعوی کرتے ہیں- سیکولرازم اور ملک میں قانون کی حکمرانی اس کی بالادستی پر لیکچرز دیتے ہیں لیکن اب وہی چندرا چوڑ بھارت میں قانون کی حکمرانی کے زوال اور گراوٹ کا باعث بن گئے-
ایک اور سوال میں یوں کہا ” چندرا چوڑ کے الفاظ تھے کہ مذہبی کردار کا تعین کرنا ممنوع نہیں ہے انہوں نے یہ بھی دعوی کیا کہ جو چیز ممنوع ہے وہ 15، اگست 1947ءکے بعد عبادت گاہ کا کردار بدلنا ہے لیکن ( مقام ) کے مذہبی کردار کا تعین کرنا غلط نہیں ہے اس بارے میں بتایئے ؟ ہیومین رائٹس کمیشن کے راہنماوں کے مطابق دانشور ہونے کا دعوی کرنے والے شخص کو ایسی وضاحت کرنے سے گریز کرنا چاہئے تھا- کیونکہ اگر آپ کسی جگہ کا کردار نہیں بدل سکتے تو کردار کے تعین کا کیا مطلب ہے ؟ ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ کیا سنبھل میں چار افراد کی موت کیلئے عدلیہ ذمہ دار نہیں ہے ؟ ہم یہاں مندر مسجدکی بحث کررہے ہیں لوگ اپنی زندگیوں سے محروم ہورہے ہیں ہندووں اور مسلمانوں کو مستقل طو رپر تقسیم کیا جارہا ہے اور یہ ایسی ریاستوں میں ہورہا ہے جہاں بی جے پی کا اقتدار ہے ایسے میں میرا ماننا ہےکہ چندرا چوڑ نے دستور اور اس ملک کے ساتھ بڑی ناانصافی کی ہے چندرا چوڑ یقیناً اپنے ہی فیصلہ کی خلاف ورزی اور اپنے ہی فیصلہ کی توہین کے مجرم ہیں ایک اور سوال پر جواب دیا کہ جسٹس چندرا نے ایک بدیانتی پر مبنی تشریح کی اگر دیکھا جائے تو صرف جسٹس چندرا ہی آئین اور قانون کی پاسداری سے متعلق اپنے ا±ٹھائے گئے حلف کے خلاف ورزی کا مرتکب ہوئے بلکہ ان کے وہ ساتھی بھی جو ہنوز سپریم کورٹ میں براجمان ہیں چندراکے ہی طرح ذمہ دار ہیں وہ چیف جسٹس سے کہہ سکتے تھے کہ ہم آپ سے متفق نہیں ہیں اور ہم اس کا حصہ بننا نہیں چاہتے ہاں جہاں جسٹس چندرا چوڑ جیسے لوگ ہیں وہیں جسٹس کول جیسے ججز بھی ہیں جنہیں غیر متنازع سمجھا جاتا ہے جنہوں نے کارروائی پر روک لگادی اب جسٹس چندرا اور ان کے ساتھیوں کی حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے جو گیان واپی مسجد کے فیصلے کا حصہ تھے۔
بھارت میں موجود دانشور لوگ کہتے ہیں کہ ملک کو غیر مستحکم کرنے اور اقلیتی برادری کو دبانے اور جبر کرنے کیلئے حالات پیداکئے گئے اور کئے جارہے ہیں ایک اور سوال پر غیرمعمولی دیانتدارانہ جواب دیتے ہوئے دانشور نے کہا کہ چندرا چوڑ نے وزیراعظم سے دوستی کا ثبوت بھی دیا اور یہ دوستی دوبارہ اس وقت ثابت کی جب انہوں نے کہا کہ بابری مسجد رام جنم بھومی ملکیت مقدمہ فیصلے میں انہیں بھگوان سے رہنمائی ملی آپ خود سوچئے کہ ملک کا چیف جسٹس ایسا کیسے کرسکتا ہے ؟ آج بھارت میں جو کچھ ہورہا ہے مجھے لگتا ہے کہ حکمران بی جے پی وزیراعظم نریندر مودی کو سنجیدگی سے اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے ملک میں لو جہاد ، لینڈ جہاد ، ہجومی تشدد یہ سب تباہی کے سامان ریاست کی تائید و حمایت سے ہورہے ہیں اور خاص طور پر بی جے پی زیراقتدار ریاستوں میں ایسا ہورہا ہے یہ لوگ بھارت میں موجود اقلیتوں میں خوف پیدا کرنا چاہتے ہیں آج آپ خوف و دہشت پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں مگر انہیں معمار دستور امبیڈکر کے وہ الفاظ یاد رکھنے چاہئے جو انہوں نے دستور ساز اسمبلی میں بحث کے دوران ادا کئے تھے کہ اقلیتیں ایک دھماکہ خیز قوت ہیں اگر وہ پھٹتی ہیں تو یہ اس ملک کے تانے بانے کو تباہ کردیں گی اور کوئی بھی محب وطن بھارتی ایسی صورتحال نہیں چاہئے گا۔ آج جو لوگ اس بھارت کی اسلامی تاریخ کو مٹانے کے در پر ہیں میں ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ آپ لال قلعہ سے شروعات کیوں نہیں کرتے آپ تاج محل ، قطب مینار کیوں نہیں جاتے ان کے نیچے کھدائی شروع کریں اور ان ہزاروں عظیم یادگاروں کو گرادیں جو اس برصغیر کا عظیم ورثہ ہیں۔