سڑکیں - ہماری شخصیت اور رویوں کا آئینہ

ڈاکٹر ناصر خان

جب ہم سڑک پر نکلتے ہیں، تو وہ صرف ایک جغرافیائی راستہ نہیں ہوتا، بلکہ ہمارے داخلی رویوں اور ذہنی کیفیت کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ سڑک پر ہمارا ہر قدم، ہر فیصلہ اور ہر ردعمل ہماری شخصیت کے مختلف پہلووں کو اجاگر کرتا ہے۔ ہم اکثر سڑکوں پر چلتے ہوئے یا گاڑی چلاتے ہوئے یہ نہیں سوچ پاتے کہ ہماری رفتار، فیصلے اور برتاو? ہماری شخصیت کے حقیقی عکس ہیں۔ سڑکیں صرف فزیکل اسپیس نہیں ہیں، بلکہ یہ ایک مجازی منظرنامہ بھی فراہم کرتی ہیں جو ہماری روزمرہ زندگی کے اندر چھپے ہوئے رویوں، عادات اور فیصلوں کو ظاہر کرتی ہے۔ جب ہم سڑک پر تیز چلتے ہیں یا گاڑی تیز رفتار سے دوڑاتے ہیں، تو یہ دراصل ہماری ذہنی حالت اور شخصیت کی عکاسی کرتا ہے—یعنی ہماری جلد بازی، جلن، یا مقصد کی طرف تیزی سے پہنچنے کی خواہش۔ اس کے برعکس، اگر ہم محتاط اور سوچ سمجھ کر چلتے ہیں، تو یہ ہمارے اندر کی سکون، تحمل اور بہتر فیصلے کرنے کی صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے۔ سڑک پر آنے والے رکاوٹوں، ٹریفک جام یا پیچیدہ راستوں کے دوران ہمارے ردعمل بھی ہمارے نفسیاتی رجحانات کو ظاہر کرتے ہیں؛ مثلاً ہم کتنی آسانی سے پریشانی میں مبتلا ہو کر غصہ کرتے ہیں، یا ہم کتنی برداشت اور سکون سے حالات کا سامنا کرتے ہیں۔ دراصل، سڑکوں پر ہمارا برتاو? ہماری شخصیت کے گہرے پہلووں کو ظاہر کرتا ہے اور ان اصولوں کو واضح کرتا ہے جو ہم اپنی زندگی میں اختیار کرتے ہیں۔ جتنا زیادہ وقت ہم سڑکوں پر گزارتے ہیں، اتنا ہی ہماری اندرونی حالتیں اور زندگی کے فیصلے ان سڑکوں پر ظاہر ہوتے ہیں، اور یہی حقیقت ہمیں خود کو بہتر سمجھنے اور اپنی شخصیت کی اصلاح کی طرف رہنمائی دیتی ہے۔
انسان اپنی زندگی کا بیشتر حصہ سڑکوں پر گزارتا ہے، اور اس لحاظ سے سڑکیں اس کے لئے صرف ایک راستہ نہیں، بلکہ اس کی زندگی کا دوسرا گھر بن جاتی ہیں۔ سڑکوں پر ہی ہم اپنے روزمرہ کے سفر میں اپنی سوچ، فیصلے اور رویوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس کے باوجود، بدقسمتی سے پاکستان جیسے ملک میں سڑکوں کو محض ایک فاصلہ طے کرنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، نہ کہ ایک اہم اجتماعی اثاثہ یا ثقافتی ورثہ۔ سڑکوں سے محبت یا ان کی عزت کا کوئی خاص تصور ہمارے ہاں ابھی تک نہیں پیدا ہو سکا۔ سڑکوں پر گندگی پھینکنا، گاڑیوں سے ریپرز اور استعمال شدہ بوتلیں سڑک پر پھینکنا ہمارے عمومی رویے کا حصہ بن چکا ہے۔ اس طرح کے اعمال نہ صرف سڑکوں کی عزت کو مجروح کرتے ہیں، بلکہ ہمارے سماجی اخلاقیات اور ذمہ داریوں کو بھی سوالیہ نشان بنا دیتے ہیں۔ ہم سڑکوں کو صرف ایک راستہ سمجھ کر ان سے صرف اپنی منزل تک پہنچنے کا ذریعہ تصور کرتے ہیں، جب کہ حقیقت میں یہ سڑکیں ہماری شخصیت، ہمارے اخلاقی معیار اور ہماری اجتماعی ذمہ داریوں کا عکس ہیں۔ اگر ہم سڑکوں کو عزت دیں، ان کی صفائی اور حفاظت کا خیال رکھیں، تو یہ ہمارے معاشرتی رویوں کی بہتری اور مجموعی تہذیب میں اضافے کا باعث بنے گا
پاکستان میں سڑکوں پر ہونے والی ٹریفک کی مشکلات کا بنیادی مسئلہ اس بات میں پوشیدہ ہے کہ ہم نے سڑکوں کو صرف "راستہ" سمجھا ہے، نہ کہ ایک مربوط نظام یا ماحول جس میں ہر عنصر کو مناسب طریقے سے چلایا جائے۔ سڑکوں کی اصل صلاحیت کو نظرانداز کرتے ہوئے ہم نے اس پر گاڑیوں کی تعداد بڑھا دی ہے، جس کی وجہ سے ٹریفک بلاک ہوتی ہے اور حادثات کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ جب سڑکوں کی اصل گنجائش سے کہیں زیادہ گاڑیاں اس پر چلتی ہیں، تو یہ نہ صرف ایک نفسیاتی دباو کا باعث بنتی ہے، بلکہ یہ معاشرتی عدم نظم و ضبط کی بھی عکاسی کرتی ہے۔
ہمارے ہاں ٹریفک کے اصولوں کی عدم پابندی اور سڑکوں کے استعمال کے بارے میں آگاہی کی کمی ہے۔ ٹریفک قوانین کی پامالی، مثلاً لین کی خلاف ورزی، تیز رفتاری، اور یکطرفہ سڑکوں پر گاڑیوں کا آنا جانا، اس سچائی کو اجاگر کرتی ہے کہ ہم سڑکوں کو ایک معقول نظام کے طور پر نہیں دیکھتے، بلکہ ایک جگہ سمجھ کر اس پر بے ہنگم انداز میں چل پڑتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ٹریفک کی روانی متاثر ہوتی ہے اور سڑکوں پر غیر ضروری جام لگنے لگتا ہے۔
جب تک ہم سڑکوں کی بنیادی صلاحیتوں کو سمجھ کر ان کا استعمال کرنے کی عادت نہیں ڈالتے، اور جب تک سڑکوں اور ٹریفک کے حوالے سے اجتماعی شعور نہیں بیدار ہوتا، تب تک ان مسائل کا حل مشکل رہے گا۔ "روڈ سینس" کو بہتر بنانا صرف ٹریفک قوانین پر عمل کرنے کا مسئلہ نہیں، بلکہ یہ ہماری اجتماعی ذہنی تربیت اور تہذیبی ترقی کی ضرورت ہے، جس کے ذریعے ہم سڑکوں کو نہ صرف ایک راستہ، بلکہ ایک ذمہ داری سمجھ کر چلیں۔ اگر ہم اپنی ذہنیت میں یہ تبدیلی لائیں کہ سڑکیں صرف ہماری ذاتی ضرورت کے لئے نہیں، بلکہ ایک اجتماعی جگہ ہیں جس کا احترام ہر فرد پر فرض ہے، تو پھر ٹریفک کی مشکلات اور سڑکوں کے مسائل میں بھی بہتری آ سکتی ہے۔
جب بھی سڑکوں پر ٹریفک بلاک ہوتی ہے، ہم اکثر حکومت یا انتظامیہ کو الزام دیتے ہیں، حالانکہ حقیقت میں بہت سے مسائل ہمارے اپنے رویوں کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ حکومت کے ذمہ یہ ہے کہ وہ سڑکوں کی منصوبہ بندی، ٹریفک قوانین اور بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنائے، لیکن ان مسائل کا حل صرف حکومتی سطح پر نہیں آتا؛ یہ ہماری اجتماعی ذہنیت اور ذاتی رویوں کا بھی مسئلہ ہے۔ جب ہم سڑکوں پر غیر ضروری طور پر لین کی خلاف ورزی کرتے ہیں، تیز رفتاری سے چلتے ہیں، یا بے احتیاطی سے گاڑی پارک کرتے ہیں، تو ہم خود اپنی ہی زندگیوں کو مشکل میں ڈالتے ہیں اور سڑکوں کی گنجائش کو مزید محدود کرتے ہیں۔
ہمارے معاشرتی رویے یہ بتاتے ہیں کہ ہم سڑکوں کو صرف اپنی ضرورتوں کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور ان کی تقدس یا صفائی کا خیال نہیں رکھتے۔ جب ہم کسی ٹریفک جام میں پھنس جاتے ہیں، تو ہم فوراً حکومت کو ذمہ دار ٹھہرا دیتے ہیں، مگر ہم یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے خود اپنی حرکتوں سے راستے تنگ کیے ہیں۔ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی، گاڑیوں کا سڑکوں پر غیر ضروری طور پر کھڑا کرنا، اور راستوں کی بلا وجہ رکاوٹیں ہمارے اپنے رویے کا حصہ ہیں جو سڑکوں پر بلاک پیدا کرتے ہیں۔
یہ بات سمجھنی ضروری ہے کہ سڑکیں صرف فزیکل اسپیس نہیں ہیں بلکہ یہ ہماری اجتماعی ذمہ داریوں کا آئینہ بھی ہیں۔ جب ہم خود اپنے رویوں میں بہتری لائیں گے، اور سڑکوں پر تہذیب اور نظم کے ساتھ چلیں گے، تب ہی ٹریفک کی بلاکنگ میں کمی آئے گی۔ اگر ہم اپنی ذاتی ذمہ داریوں کو سمجھ کر حکومت پر الزام لگانے کی بجائے اپنی کردار سازی پر توجہ دیں، تو سڑکوں کی روانی اور ہمارے معاشرتی رویے دونوں میں بہتری آ سکتی ہے۔
سڑکوں کا بہتر استعمال نہ صرف ٹریفک کی روانی کے لیے ضروری ہے بلکہ یہ ہمارے ذہنی سکون اور روزمرہ کی زندگی کے معیار کے لیے بھی اہم ہے۔ ٹریفک کی صورتحال کو بہتر بنانے اور ڈپریشن سے بچنے کے لیے ہمیں چند اہم طریقے اپنانا ہوں گے۔ سب سے پہلے، ٹریفک قوانین کی مکمل پابندی ضروری ہے۔ لین کی پیروی، ٹریفک سگنلز کا احترام اور رفتار کی حد کا خیال رکھنے سے سڑکوں پر بے ترتیبی اور جام کی صورتحال کم ہو گی، جس سے نہ صرف ٹریفک کی روانی بہتر ہو گی بلکہ ہم سب کو ذہنی سکون بھی ملے گا۔ اسی طرح، سفر کے اوقات کی منصوبہ بندی اور مصروف اوقات میں سفر سے گریز کرنا بھی مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ کم ٹریفک والے راستوں کا انتخاب کرنے سے ہم اپنے سفر کو زیادہ آرام دہ بنا سکتے ہیں۔ گاڑیوں کی زیادہ تعداد کو کم کرنے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال بڑھانا چاہیے، جو نہ صرف سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد کم کرے گا بلکہ ماحول کے لیے بھی مفید ہوگا۔ سڑکوں پر تحمل اور سکون کا مظاہرہ کرنا بھی ضروری ہے، کیونکہ بے صبری سے ٹریفک کی مشکلات مزید بڑھ جاتی ہیں۔ حکومت اور مقامی انتظامیہ کو سڑکوں کے انفراسٹرکچر کی بہتری پر کام کرنا چاہیے، جیسے کہ سڑکوں کی صفائی، سگنلز کا درست استعمال اور مناسب پارکنگ ایریاز کی تعمیر تاکہ سڑکوں کی کارکردگی بہتر ہو سکے۔ ہم میں سے ہر ایک کو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ سڑکوں پر ہمارے رویے کا اثر نہ صرف ہم پر بلکہ دوسرے افراد پر بھی پڑتا ہے، اس لیے ہمیں مثبت ذہنی حالت اور بہتر باڈی لینگویج کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ آخرکار، سمارٹ فون ایپس جیسے گوگل میپس یا ویز کا استعمال ٹریفک کی صورتحال کے بارے میں آگاہی فراہم کرتا ہے اور کم ٹریفک والے راستوں کا انتخاب کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اگر ہم یہ تمام طریقے اپناتے ہیں، تو نہ صرف سڑکوں کی روانی میں بہتری آئے گی، بلکہ ہم ذہنی دباو اور ڈپریشن سے بھی بچ سکیں گے، اور سڑکیں ہمارے لیے صرف فاصلہ طے کرنے کا راستہ نہیں بلکہ ایک بہتر معاشرتی نظام اور ذہنی سکون کے لیے اہم بن جائیں گی۔

ای پیپر دی نیشن