نونہالوں کا خیال رکھیں ، یہ ملک کا مستقبل ہیں

ٹی ٹاک …طلعت عباس خان ایڈووکیٹ 
takhan_column@hotmail.com 

بچوں کا خیال رکھنا ہم سب پہ فرض ہے۔آج کے بچے کل کا مسقبل ہیں۔اگر ملک کو سنوارنا ہے تو بچوں پر توجہ دیں، ہم سب بھی کبھی بچے ہوا کرتے تھے۔ سقراط کہتا ہے کہ میں جب چھوٹا تھا تو صبح کو بہت دیر سے اٹھتا تھا، والدہ کو میری اس روش سے سخت نفرت تھی، کیوں کہ وہ مجھے بہت بڑا تاجر دیکھنا چاہتی تھی۔ ایک دن مجھے ایک استاد صاحب کے پاس لے گئی تاکہ وہ مجھے سویرے اٹھنے کی فوائد بتائیں۔ اس استاذ نے ایک کہانی کے ذریعے مجھے موٹیویٹ کرتے ہوئے کہا:''دو پرندے تھے، ایک سویرے اٹھ کر کیڑے مکوڑے تلاش کر کے پیٹ بھرتا تھا اور دوسرا دیر سے اٹھتا، جس کیلیے کوئی کیڑا مکوڑا زمین پر رینگتا ہوا نہ ہوتا کہ وہ کھا سکے۔''یہ کہانی سنا کر ، استاذ نے سقراط سے فیڈ بیک لیتے ہوئے پوچھا: ''اس کہانی سے آپ نے کیا سمجھا؟''سقراط بولے:''جو کیڑے جلدی اٹھتے ہیں، وہ جلدی کھائے جاتے ہیں۔''لہزا اگر اپ کے بچے دوسروں سے ہٹ کر ہیں تو ان پر نظر رکھیں توجہ دیں لیکن پریشان نہ ہوا کریں۔ بچے بھی مشکلات سے دوچار رہتے ہیں انہیں سنا کریں!ان کے مسائل ہنگامی بنیادوں پر حل کیا کریں۔ہم پر بچوں کا خیال رکھناہم پہ فرض ہے۔ مگر ہم اس فرض کو نبھاتے نہیں، جس کی وجہ سے بعض بچے بچپن سے ہی مشکل حالات سے گزر رہے ہوتے ہیں۔غربت کا نقصان سب سے زیادہ بچوں کو ہوتا ہے۔اسی غربت کی وجہ سے بچہ کوئی چوری پہ لگ جاتا ہے کوئی بھیگ مانگتا شروع کر دیتا ہے کوئی گندگی کے ڈھیروں سے جانوروں کے ساتھ کھانا کھا رہا ہوتا ہے۔ایسے میں یہ بچے بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بعض بچے مان باپ کی علیحدگی کی وجہ سے در بدر ہو جاتے ہیں۔ ایسے ہی بعض بچے ایک خاص گروہ کی وجہ سے والدین کی گود سے چوری ہو جاتے ہیں۔ پھر اپنی مرضی سے ضرورت مندوں کے ہاتھوں فروخت کر دیتے ہیں۔ جب یہی بچیتھوڑے بڑے ہوتے ہیں تو حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر چوری چکاری کرنے لگ پڑتے ہیں۔ انسان ہی انہیں برے کاموں میں لگا دیتا ہے۔پھر پکڑے جانے پر جیل چلے جاتے ہیں۔ جہاں ان کا کوئی پروسان حال نہیں ہوتا پھر جیلوں کا ماحول انہیں انسان بنائے جانے کے بجائے ان بچوں کو کرائم کا بادشاہ بنا دیتے ہیں۔ دنیا ساری میں ایسے بچوں کی بہتری کیلیے این جی اوز اور حکومتی ادارے کام کر رہے ہیں۔بچوں کے حقوق کے تحفط کیلیے میرا محترم دوست ضیا احمد اعوان ایدوکیٹ سپریم کورٹ رات دن کام کرتے دکھائی دیتا ہے۔ اکثر ہم اسے میڈیا اور عدالتوں میں سنتے رہتے ہیں۔ ضیائ اعوان بچوں کے حقوق کے لیے زندگی کے مختلف لوکل اور انٹرنیشنل فورم پر بچوں کے حقوق کی جنگ کرتے چیخو پکار کرتے دیکھتے سنتے رہتے ہیں۔28 نومبر کو اس بار بچوں کے کیس کیلئے اسلام آباد سپریم کورٹ آئے ہوئے تھے۔ مصروفیات کے باوجود کچھ وقت ان سے گپ شپ میں گزارا۔ اس ملاقات میں اپنے اس کیس کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ جو اپ کی خدمت میں پیش ہے۔ اسلام آباد، 28 نومبر 2024 سپریم کورٹ کے چھ رکنی آئینی بینچ نے بچوں کی ٹریفکنگ، اغوا اور گمشدگی جیسے سنگین مسائل پر اپنے عزم کا اعادہ کیا۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں ہونے والی اس سماعت میں ایڈووکیٹ ضیائ احمد اعوان، آئی جی سندھ، ایڈیشنل ہوم سیکرٹری سندھ، سندھ چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے، اٹارنی جنرل پاکستان اوردیگر فریقین بھی موجود تھے۔سپریم کورٹ میں سماعت کا آغاز کوئٹہ، بلوچستان میں بچے کے اغوا کے کیس سے ہوا، جس کے باعث شہر میں احتجاج اور شٹ ڈاو¿ن جاری تھا۔ اٹارنی جنرل نے درخواست کی کہ وہ اور آئی جی بلوچستان اس معاملے پر ججز کو چیمبرز میں رپورٹ پیش کرنا چاہتے ہیں۔ عدالت نے اس درخواست کو قبول کیا اور رپورٹ پیش ہونے کے بعد بتایا گیا کہ بلوچستان ہائی کورٹ نے اس معاملے پر نوٹس لیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اس کیس کی سماعت رپورٹ آنے تک ملتوی کر دی۔ اس کے بعد عدالت نے ایڈووکیٹ ضیاءاحمد اعوان کی جانب سے بچوں کے اغوا اور ٹریفکنگ کے بڑے مسئلے پر جزوی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اسلام آباد میں سیاسی بدامنی اور امن و امان کی صورتحال کے باعث عدالت کی ہدایت کے مطابق اجلاس منعقد نہیں ہو سکا۔ انہوں نے مزید وقت کی درخواست کی تاکہ بچوں کے اغوا اور ٹریفکنگ کے مسئلے کے حل کے لیے جامع حکمت عملی تیار کی جا سکے۔ عدالت نے ان کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے دو ہفتوں کے لیے سماعت ملتوی کر دی اور تمام متعلقہ فریقین کو اجلاس منعقد کر کے جامع سفارشات پیش کرنے کی ہدایت کی۔گزشتہ سماعت میں عدالت نے پاکستان کے اٹارنی جنرل کو ہدایت دی تھی کہ وہ تمام صوبوں کے چیف سیکرٹریز، آئی جی پولیس، ہوم سیکرٹریز اور درخواست گزار ایڈووکیٹ ضیاءاحمد اعوان کے ساتھ ایک اعلیٰ سطحی اجلاس طلب کریں اور 28 نومبر کو ہونے والی اگلی سماعت سے قبل ٹھوس سفارشات پیش کریں۔ ایڈووکیٹ ضیاءاحمد اعوان نے کہا، "یہ مہلت ہمارے لیے ایک موقع ہے کہ ہم بچوں کے تحفظ کے لیے ایک قومی ایکشن پلان تیار کریں۔ ہمیں اس چیلنج کو مستقل حل میں تبدیل کرنے کے لیے بھرپور اقدامات کرنے ہوں گے۔"یہ سماعت بچوں کے تحفظ کے عالمی مطالبات کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے، جس میں بچوں کے حقوق اور بہبود کو یقینی بنانے کے لیے مشترکہ کوششوں پر زور دیا گیا۔ مددگار نیشنل ہیلپ لائن 1098، جو چائلڈ ہیلپ لائن انٹرنیشنل کی بانی رکن اور یونیسف کی دہائیوں پر محیط شراکت دار ہے، نظامی اصلاحات کے لیے مسلسل کام کر رہی ہے۔ ہم تمام متعلقہ فریقین سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس اہم مسئلے کے حل کے لیے فیصلہ کن اقدامات کریں۔ اب دیکھتے ہیں عدالت کیا حکم صادر کرتی۔ ہمارے یہاں بچوں کے لیے الگ سے چلڈرن کورٹ بنا ئ جائیں۔ جن گھروں دوکانوں میں بچے کام کرتے ہیں ان پر چوری کے مقدمات بناتے ہیں۔ بچوں کو عدالتی نظام سے مت گزاریں۔ ایسے بچوں کے فیصلے سالوں میں نہیں ہفتوں میں ہونے چائے۔ بچے کو ججز سنا کریں۔ انہیں بولنے دیا کریں۔ انصاف جتنا جلد ہو بچوں کو دیا جائے۔ بچوں کی سمگلنگ کرنے والوں کو سخت سزائیں دی جائیں۔ حکومت کی زمہ داری ہے کہ سکول کے وقت کوئی بچا گھومتے پھرتے نظر نہیں سنا چائے۔ حکومت انہیں نہ صرف مفت تعلیم دے مفت کھانا بھی دے۔ بلکہ انہی مفت علاج کی سہولتیں بھی فراہم کرے۔ جن کے لیے رہنے کو جگہ نہیں والدین کا سایہ نہیں انہی چھت بھی دے۔ اس ملک کو فلاحی اسٹیٹ بنائیں۔ پاکستان وہ خوش قسمت ملک ہے جہاں نوجوانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ انہیں پیار دیں، یہ پھول ہیں۔ پڑھائیں کام سکھائیں، ہنر مند بنائیں۔ اس کام میں ہم سب کو ساتھ دینا ہو گا۔ انہیں تعلیم کے ساتھ تربیت بھی دینا ضروری ہے۔!!

ای پیپر دی نیشن