وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لیے چین کے ساتھ مشترکہ ورکنگ گروپ قائم کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ مریم نواز نے شنگھائی میں موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیات سے متعلق خصوصی اجلاس سے خطاب میں بتایاکہ 32سال بعد چین کا دورہ کیا تو ایک نیا چین دیکھنے کو ملا جسے لوگ دورِ حاضر کا معجزہ کہتے ہیں۔ چین کی ترقی پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک کے لیے مشعل راہ ہے۔ مشترکہ ورکنگ گروپ قائم کرنے کی تجویز عمدہ ہے۔اس تجویز پر آسانی سے عمل بھی ہو جائے گا لیکن ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لیے جو اقدامات کرنے چاہئیں کیا ان پر عمل درآمد ہو سکتا ہے ؟ یہ بہت بڑا سوال ہے۔ بڑے شہروں میں آلودگی یا سموگ کی سب سے بڑی وجہ بے ہنگم ٹرانسپورٹ ہے۔ ہمارے ہاں پبلک ٹرانسپورٹ کا مستحکم نظام موجود نہیں۔ آلودگی کی وجہ بننے والی ٹریفک کو شہر سے دور رکھنا تو دور کی بات ہے یہاں تو موٹرسائیکل رکشوں کو سسٹم میں نہیں لایا جا سکا۔ اسی طرح بڑے بڑے شعبوں کا ارتکاز بھی بڑے شہروں میں ہے۔تعلیم اور صحت کی سہولتیں اگر چھوٹے شہروں میں بھی بڑے شہروں جیسی ہوں تو ان علاقوں سے بڑے شہروں میں منتقلی کا سلسلہ رک سکتا ہے۔ چھوٹے شہروں میں معیاری ہسپتال موجود نہیں۔ تعلیمی ادارے ہیں تو ان میں سے کتنے ہیں جہاں طلبہ اور اساتذہ کے قیام کی گنجائش موجود ہے؟ چین کے ساتھ ورکنگ گروپ قائم کرنا ہے اور نتائج بھی وہی لینے ہیں تو پھر کرنا بھی وہی کچھ پڑے گا جو چین نے کیا ہے۔ وہاں ڈنڈے کے زور پر سارا کچھ نہیں کیا گیا بلکہ لوگوں میں شعور اجاگر کر کے بہتر نتائج حاصل کیے گئے۔ ادھر، عالمی عدالت انصاف میں پاکستان نے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے عالمی برادری سے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔ عدالت میں پاکستان کی نمائندگی اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کی جہاں انھوں نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے 2022ءکے خطاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انسانیت اب موسمیاتی ہنگامی صورتحال نظر انداز کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔پاکستان کی طرف سے اقوام متحدہ یا دنیا کے کسی بھی فورم سے یہ بجا مطالبہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے عالمی برادری اپنا کردار ادا کرے لیکن ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اپنے طور پر وہ سارے اقدامات کر لیے ہیں جو ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ناگزیر رہے ہیں؟