وزیراعظم محمد شہباز شریف نے اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (او آئی سی سی آئی) کی حالیہ رپورٹ پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ رپورٹ عالمی سطح پر سرمایہ کاروں کے لیے ایک مثبت پیغام اور اس امر کی عکاس ہے کہ پاکستان سرمایہ کاری کے لیے ایک امید افزا اور قابل اعتماد منزل ہے۔ شہباز شریف نے کہا کہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بیرونی سرمایہ کاروں کا پاکستان پر اعتماد بڑھا ہے، ملک میں کاروبار کرنے کے لیے ماحول میں بہتری آئی اور پاکستان کے بارے میں عالمی سوچ منفی 10 فیصد سے نکل کر 31 فیصد مثبت پر آگئی ہے جو کہ انتہائی خوش آئند ہے۔ پاکستان میں روزگار کے مواقع بڑھے ہیں، پاکستان کے مینوفیکچرنگ سیکٹر کی گروتھ 2 فیصد سے 6 فیصد پر آگئی ہے جبکہ سروسز سیکٹر کی گروتھ 7 فیصد سے بڑھ کر 30 فیصد ہو گئی ہے جو کہ ایک نمایاں کامیابی ہے۔ سیمنٹ، آٹو سیکٹر، فرٹیلائزرز اور پٹرولیم مصنوعات کی فروخت میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ برآمدات اور ریکارڈ ترسیلات زر کی بدولت ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا۔ وزیراعظم نے عوام کو ریلیف کی فراہمی کو حکومت کی ترجیح قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کی بہتر معاشی پالیسیوں اور معاشی ٹیم کی محنت کے ثمرات ملنا شروع ہو گئے ہیں۔
شہباز شریف نے اپنے مذکورہ بیان میں بہت سے دعوے ایک ساتھ کردیے ہیں اور زمینی حقائق ان کی تصدیق نہیں کررہے۔ مثال کے طور پر وہ کہہ رہے ہیں کہ زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے لیکن سٹیٹ بینک کی ہفتہ وار رپورٹ بتا رہی ہیں کہ ان ذخائر میں تقریباً دو کروڑ ڈالر کی کمی ہوئی ہے۔ اسی طرح وزیراعظم نے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کا جو دعویٰ کیا ہے اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھی ہی ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حکومت نے دو ہفتے پہلے اضافہ کیا تھا اور امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ کل ایک بار پھر پٹرول کے نرخ بڑھیں گے۔ اس صورتحال میں شہباز شریف نے کون سے عوام کو ریلیف دیا اور ان کی معاشی ٹیم کی محنت کے ثمرات کسے مل رہے ہیں، یہ سمجھنے سے عام آدمی قاصر ہے!
ادھر، صدر آصف علی زرداری نے پاکستان اور چین کے مابین اقتصادی اور تجارتی تعاون کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ممالک کے عوام بالخصوص سرمایہ کاروں اور کاروباری اداروں کے درمیان روابط بڑھانا ہوں گے۔ بلاول ہاﺅس کراچی میں چین کے کاروباری وفد سے ملاقات میں گفتگو کرتے ہوئے صدر نے پاکستانی معیشت کے مختلف شعبوں میں چینی سرمایہ کاری بڑھانے پر زور دیا۔ وفد نے ملکی شعبہ صحت کی ترقی کے لیے پاکستان میں میڈیکل سٹی کے قیام کے لیے ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری میں دلچسپی کا اظہار کیا۔ وفد نے معیشت کے مختلف شعبوں بالخصوص زراعت، لائیو سٹاک، توانائی، ٹرانسپورٹ اور مینوفیکچرنگ میں سرمایہ کاری میں دلچسپی کا بھی اظہار کیا۔ اس موقع پر صدر مملکت نے کہا کہ گوادر بندرگاہ سے نہ صرف علاقائی روابط بہتر ہوں گے بلکہ علاقائی تجارت اور اقتصادی تعاون کو بھی فروغ ملے گا۔
اسی طرح، وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ پاکستان کی معیشت پائیدار اقتصادی ترقی کی جانب گامزن ہے۔ انھوں نے سکوک جیسے شریعہ بانڈز کے ذریعے بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور غربت کے خاتمے کے لیے مالیات حاصل کرنے کی کوششوں کا اشارہ دیا۔ کراچی میں دوسری انٹرنیشنل اسلامک کیپٹل مارکیٹس کانفرنس اینڈ ایکسپو سے آنلائن خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان کو حالیہ برسوں میں معاشی چیلنجز کا سامنا رہا ہے لیکن ان مسائل کو حل کر لیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طریقہ کار کے ساتھ پاکستان اسلامک فنانس کے ایک اہم عالمی مرکز کے طور پر ابھرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ حکومت شرعی اصولوں کے مطابق مالیاتی نظام کو تبدیل کرنے، اسلامی مصنوعات کے ذریعے نئی سرمایہ کاری بڑھانے اور شرح سود کے قرضوں پر انحصار کم کرنے کے لیے بھی پرعزم ہے۔
معیشت سے متعلق ایک اہم خبر یہ بھی ہے کہ ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے پاکستانی معیشت میں نمایاں بہتری کا اعتراف کرتے ہوئے رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتار 3 فیصد تک پہنچنے کی پیش گوئی کی ہے۔ اے ڈی بی کی جاری کردہ ایشیا ڈیویلپمنٹ آوٹ لک رپورٹ کے مطابق رواں، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے نئے قرض پروگرام کی منظوری کے بعد پاکستان میں میکرو اکنامک استحکام آیا۔ پاکستان میں مہنگائی میں توقعات سے زیادہ تیزی سے کمی آئی ہے۔ نومبر میں مہنگائی ساڑھے چھے سال کی کم ترین سطح 4.9 فیصد پر آگئی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ درآمدی پابندیاں ختم ہونے سے صنعتی شعبہ رفتار پکڑے گا۔ پالیسی ریٹ میں کمی سے معاشی سرگرمیوں میں بھی تیزی آنی چاہیے۔ سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ اور زرمبادلہ کے ذخائر تک رسائی آسان ہوگی۔
حکومت اور غیر ملکی ادارے پاکستان کی معیشت کی بہتری میں جو دعوے کررہے ہیں ان کا لازمی نتیجہ یہ نکلنا چاہیے کہ عام آدمی کا معاشی بوجھ کم ہو اور اس کی حالت میں مثبت تبدیلی آئے لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ معروضی حالات ان دعووں کی تردید کررہے ہیں جو حکومت اور بیرونی ادارے کی طرف سے کیے جارہے ہیں۔ اگر واقعی معاشی معاملات میں بہتری آئی ہے تو حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر پٹرولیم مصنوعات اور بجلی سمیت تمام اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں قابلِ ذکر حد تک کمی لائے تاکہ عام آدمی کو بھی اس بات کا یقین ہوسکے کہ معیشت واقعی استحکام اور ترقی کی جانب گامزن ہے۔ اگر حکومت کی طرف سے عام آدمی کو کوئی ریلیف نہیں دیا جاتا ہے اور ضروری اشیاءکی قیمتیں برقرار رہتی ہیں یا بڑھتی چلی جاتی ہیں تو عوام کو حکومت کی اپنی یا غیر ملکی اداروں کی رپورٹوں کے ذریعے مطمئن نہیں کیا جاسکتا۔