ہفتہ‘ 11 جمادی الثانی 1446ھ ‘ 14 دسمبر 2024

صوبائی محکمے واپڈا کے بل جلد ادا کریں، وزیر توانائی کا وزرائے اعلیٰ کو خط
محکمہ بجلی والوں کا سارا زور صرف عام صارفین پر چلتا ہے جو ایمانداری سے اپنا بل ہر ماہ جمع کراتے ہیں۔ جائز و ناجائز اضافی یونٹس اور چوری ہونے والی بجلی کا بوجھ بھی انھی پر ڈالا جاتا ہے مگر وہ اف تک نہیں کرتے اور خاموشی سے سر جھکا کر بل جمع کراتے ہیں۔ ذرا ایک آدھ ماہ بل کسی مجبوری کی وجہ سے جمع نہ کراسکے تو نہایت ڈھٹائی سے انھیں دھمکانے والا بجلی کا بل وصول ہوتا ہے جس میں لکھا ہوا ہے، بل جمع نہ کرانے کی صورت میں بجلی کاٹ دی جائے گی۔ یہ تذلیل بھی وہ سہہ لیتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ بھی بپھر کر سڑکوں پر آتے اور یہ ناجائز بھاری بھرکم بل ادا کرنے سے انکار کرتے۔ وہ تو یہ بھی نہیں کرتے اور لوڈشیڈنگ کا عذاب بھی سہتے ہیں۔ اس کے برعکس خیبر پختونخوا میں دیکھ لیں، علاقہ ایم پی اے یا ایم این اے مظاہرین کو لے کر گرڈ سٹیشن میں داخل ہو کر بجلی خود چالو کرتے ہیں اور محکمہ بجلی والے منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ غنڈہ گردی اور ڈنڈے کے آگے وہ بھی کچھ نہیں کرتے۔ یہی صورتحال صوبائی حکومتوں کے محکموں کی ہے۔ ہر محکمہ واپڈا کا بڑا نادہندہ ہے مگر بار بار نوٹس کے باوجود بل ادا نہیں کرتے۔ عجیب بے حسی کا ماحول ہے۔ زور صرف غریب عوام پر چلتا ہے۔ اب وزیر توانائی اویس لغاری نے محکمہ توانائی کی طرف سے تمام صوبائی حکومتوں کو اور واپڈا کے نادہندہ محکموں کو خط بھیجا ہے کہ وہ بل ادا کرنے میں تاخیر نہ کریں۔ بھلا اس معصومانہ فرمائش پر کوئی بل جمع کراتا ہے کیا۔ ہاں اگر فوری طور پر ان نادہندگان کی بجلی منقطع کر دی جائے تو شاید یہ نیند سے بیدار ہوں۔ ورنہ اربوں روپے واپڈا والے وصول کر نہیں سکتے۔ اس کی مار صرف ہزاروں کے بل تک ہے۔ یہاں بااثر حکومتی محکمے ہیں جو ایک ٹکا دینے کے موڈ میں نہیں۔ 
ٹرمپ نے نیا پرفیوم ’دشمن کو پگھلا دے‘ کے پیغام کے ساتھ لانچ کر دیا۔ اثرات پاکستان میں پہلے پہنچ گئے
بڑی عجیب بات ہے ایک طرف امریکا انسانی جسموں کو فولادی ٹینکوں تک کو پگھلانے والے خطرناک بم بنا کر دشمنوں کے دل دہلا رہا ہے، دوسری طرف نو منتخب امریکی صدر ٹرمپ نے جو پرفیوم مارکیٹ میں لانچ کیا ہے جس کی تشہیر بھی کمال کی ہے، یہ پرفیوم کا نام ان کے عزائم کی عکاسی کرتا ہے۔ جی ہاں، وہ ہے۔ ’فائٹ فائٹ فائٹ‘ یعنی لڑو لڑو لڑو جبکہ اس کی تصویر جو جاری ہوئی ہے، اس میں امریکی سابق صدر جوبائیڈن کی اہلیہ نیم لب خنداں ٹرمپ کو دیکھ رہی ہیں اور اس کا متن بھی خاصہ دلفریب ہے۔ ’دشمن کو پگھلا دے‘۔ اس سے لگتا ہے کہ ٹرمپ کے اندر ایک فلمی ہیرو بھی چھپا ہوا ہے اور ایک ماہر کاروبار شخصیت بھی ورنہ ایسا خوبصورت آئیڈیا بھلا عام انسان کہاں سوچتا ہے۔ امریکی صدر اگر ایسی عاشقانہ طبیعت رکھتے ہیں تو بڑے کمال کی بات ہے۔ ایسی ہی کمال کی بات گزشتہ شب ایک تقریب میں ہم سب نے بھی دیکھی جہاں پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر کو پارٹی کے ناقد فیصل واوڈا کے ساتھ بغلگیر ہوتے مسکراتے ہوئے ہائے ہیلو کرتے دیکھ کر سب حیران تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں بھی ٹرمپ کا پرفیوم لانچ ہونے کے ساتھ ہی ان کے سلوگن ’دشمن کو بھی پگھلا دے‘ والے پیغام پر عمل شروع کر چکا ہے۔ یہ ہوتی ہے بات۔ کام واشنگٹن میں ہو اور اثر کراچی میں ہوتا ہے۔ کیا خوبصورت ہم آہنگی ہے۔ امریکا اور پاکستان میں یہاں بھی اپوزیشن والے اب
 میاں جی سلام میرے دل کے نام،
کوئی ہو پیغام تو ارشاد کیجیے
 والے مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں۔ تاخیر سے ہی چلو راہ تو مل گئی انھیں۔ کیوں ملی، کیسے ملی، کی بحث میں پڑنا فضول ہے۔ 
 آپ 2018ءوالا ہمارا مینڈیٹ واپس کریں، ہم 2022ءکا واپس کریں گے، اسحاق ڈار
یہ اچھی سوجھی نائب وزیراعظم کو۔ ایسی بات کردی جو لطیفہ تو کہلا سکتی ہے، حقیقت نہیں بن سکتی۔ گزرا ہوا وقت زبان سے نکلی بات اور کمان سے نکلا تیر ایک اور اضافہ کرلیں، گزری ہوئی جوانی کبھی لوٹ کر نہیں آتی۔ اسی لیے اس پر ’گزارا ہوا زمانہ آتا نہیں دوبارہ، حافظ خدا تمھارا‘ کہہ کر چودھری شجاعت کے فارمولے کے تحت مٹی پاو¿ ہی ٹھیک رہے گا۔ اب نہ تو 2018ءکا مینڈیٹ واپس لایا جا سکتا ہے، نہ 2022ءکا۔ اس لیے اب ایک دوسرے پر ملبہ ڈالنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس وقت پی ٹی آئی والے پریشان ہیں، انھیں اپنے مقدمات سے نجات نہیں ملتی۔ اب ایک کورٹ مارشل کی وجہ سے وہ فرنٹ پر کھیلتے کھیلتے اچانک بیک فٹ پر چلی گئی ہے۔ شعلہ بیان تقریر بھی دھول اڑانے کی بجائے دھول بٹھانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ ایسی میٹھی میٹھی صورتحال میں اب ڈار جی بھی کڑوی کسیلی باتیں کر رہے ہیں۔ ایسی میٹھی میٹھی صورتحال میں اب ڈار جی بھی کڑوی کسیلی باتیں کرنا چھوڑ دیں۔ اس وقت انھیں ساری توجہ اپنے اتحادی پیپلزپارٹی پر دینی چاہیے جو پی ٹی آئی کی طرف سے مذاکرات کے لیے رابطوں پر انھیں اعتماد میں نہ لینے پر مسلم لیگ (ن) سے ناراض لگ رہی ہے اور میڈیا پر اس کا اظہار بھی ہو رہا ہے۔ اس لیے اس وقت حکومتی اتحاد کو راضی کرنا بھی ضروری اور اہم ہے۔ کہیں پی ٹی آئی کے رابطے اتحاد کے لیے سعد ثابت نہ ہوں۔ اس لیے پہلے بلاول جی کو راضی کرنا ہوگا تاکہ وہ بھی پی ٹی آئی سے مذاکرات میں موجود رہے۔ 
2024ءمیں زیادہ تر پاکستانی کھانا بنانے کی تراکیب تلاش کرتے رہے، گوگل رپورٹ
سچ کہتے ہیں، بھوکے کو خواب میں بھی روٹیاں ہی نظر آتی ہیں۔ محبوب کا چہرہ اسے روٹی اور اس کی ناک اسے بوٹی نظر آتی ہے۔ اب یہ رپورٹ ملاحظہ کرنے کے بعد تو یقین ہو گیا جو چیز میسر نہ ہو یا آسانی سے نہ ملے، اس کی طلب زیادہ ہو جاتی ہے۔ اس وقت ملک بھر میں اشیائے خور و نوش کی قیمتیں عام متوسط طبقے کی پہنچ سے باہر ہیں، ہر چیز سونے کے بھاو¿ بکتی ہے، ہری مرچ، دھنیا جو پہلے سبزی والا یونہی ’جھونگے‘ میں فری ڈال دیتا تھا، اب وہ ڈیڑھ دو سو روپے کلو ملتے ہیں۔ دالوں کی تو بات ہی نہ کریں، وہ کھانے کے لیے جیب نوٹوں سے بھری ہونی چاہیے ورنہ وہی یہ منہ اور مسور کی دال والے سبق پر گزارہ کرنا بہتر ہے۔ گوگل کے ایک سروے سے پتا چلتا ہے کہ 2024ءمیں فضول اور بیہودہ مواد سے ہٹ کر اگر دیکھا جائے تو پاکستانی سب سے زیادہ کھانے پکانے کے طریقوں کو تلاش کرتے رہے باقی علوم ،سائنس اور ٹیکنالوجی کی تو بات ہی چھوڑیں‘ اس سے بھلا ہم شریف اور غریب لوگوں کا کیا لینا دینا۔ یہ تو ترقی یافتہ‘ بھرے پیٹ والے ممالک کے چونچلے ہیں۔ سچ کہتے ہیں ہم جیسے بے فکر فقرا لوگوں کوہمیشہ ناف سے نیچے اور ناف سے اوپر ہی کی توجہ رہتی ہے۔ ناف سے اوپر معدہ ہے جس کے خالی ہونے سے یا بھرے ہونے سے ہی اچھے برے خیالات آتے ہیں، یعنی ہماری ساری زندگی لگتا ہے اس پاپی پیٹ پوجا کے گرد ہی منڈلاتی رہتی ہے۔ اب زیرناف کا حصہ اور اس کے بارے میں فضول بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس پر جن کو شوق ہے وہ گوگل کی ریسرچ کے بارے میں رپورٹ دیکھ لیں یا پڑھ لیں۔ چودہ طبق روشن ہو جائیں گے بلکہ سچ میں کہیں تو بھوک بھی اڑ جائے گی۔ پتا چلے گا پیٹ سے زیادہ ہماری آنکھیں بھوکی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن