جنرل فیض حمید کا منطقی انجام 

ڈی جی آئی ایس پی آر کی تازہ پریس ریلیز کے مطابق جنرل فیض حمید کے خلاف چارج شیٹ باضابطہ طور پر عائد کر دی گئی ہے۔اس چارج شیٹ میں جنرل فیض پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے طاقتور خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ کی حیثیت سے ریاست کے مفاد کو نقصان پہنچایا وہ کھلم کھلا سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے رہے اور اختیارات کا غلط استعمال کیا انہوں نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کی اور ریاست کے مفاد کو داو پر لگا دیا ۔ انہوں نے اپنے اختیارات کو غلط استعمال کر کے متعدد افراد کو نقصان بھی پہنچایا۔ پریس ریلیز کے مطابق ان الزامات کے علاوہ ان کے خلاف نو مئی کے واقعات میں مزموم سیاسی عناصر سے ملی بھگت کی بھی تفتیش ہو رہی ہے ۔ آئی ایس پی آر کے مطابق کورٹ مارشل کے دوران جنرل فیض حمید کو قانون کے مطابق تمام حقوق حاصل ہوں گے ۔ جنرل فیض حمید کے خلاف چار ماہ قبل 12 اگست کو فیلڈ کورٹ مارشل کی کاروائی کا اغاز کیا گیا تھا ۔ اس کاروائی کے لیے ان کو باضابطہ طور پر فوج کی حراست میں لے لیا گیا تھا۔ یہ خبر پاکستانیوں اور دنیا کے لیے دھماکے سے کم نہیں تھی ۔ عسکری تاریخ میں پہلی بار پریمئر ایجنسی کے سربراہ کے خلاف کاروائی کرنے کا فیصلہ دلیرانہ تھا جس کے لیے ادارہ جاتی مشاورت کی گئی ۔ جنرل فیض حمید کے خلاف سپریم کورٹ کی میں دائر کی گئی ٹاپ سٹی ہاوسنگ سوسائٹی کے سنگین اور حساس الزامات پر مبنی ایک درخواست محکمانہ کارروائی کے لیے وزارت دفاع کو ارسال کی گئی تھی ۔ اطلاعات کے مطابق جنرل فیض حمید نے میاں علی اشفاق ایڈووکیٹ کو اپنا وکیل مقرر کر دیا ہے تاکہ وہ ان کا قانونی دفاع کر سکے ۔ جب جنرل فیض حمید کو فوجی حراست میں لیا گیا تھا تو اس وقت تحریک انصاف کے مرکزی رہنما عمران خان نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ فیض حمید کو میرے خلاف وعدہ معاف گواہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور مجھے فوجی عدالت میں لے جانے کے لیے یہ ڈرامہ رچایا جا رہا ہے ۔ جنرل فیض حمید کی تفتیش کے دوران تین سابق فوجی افسران کو بھی عسکری تحویل میں لیا گیا جن پر فوج کے نظم و ضبط کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا تھا ۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی جانب سے فیض حمید کا نام لے کر عدالت پر دباو ڈالنے کا الزام عائد کیا گیا تھا ۔ پاکستان مسلم لیگ نواز اور پی پی پی پی دونوں سیاسی جماعتیں جنرل فیض حمید پر الزامات لگاتی رہی ہیں کہ وہ اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے پی ٹی ائی کی حکومت کو سپورٹ کرتے رہے ہیں ۔ ان جماعتوں کا یہ الزام بھی رہا ہے کہ 2018 کے انتخابات میں جنرل فیض حمید اور سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے کی راہ ہموار کی تھی ۔ جنرل فیض حمید اپنے قریبی ذرائع کے ذریعے ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں ۔ آرمی ایکٹ کے قوانین کے ماہر محترم کرنل عبدا لرحیم ایڈووکیٹ کا یہ خیال ہے کہ جنرل فیض حمید کو ریاست کے راز افشا کرنے پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت عمر قید کی سزا بھی ہو سکتی ہے اور ٹھوس شہادتوں کی بنا پر جنرل فیض حمید کے خلاف مقدمہ اپنے منطقی انجام تک پہنچے گا جسے عسکری تاریخ میں ایک سینیئر جرنیل کے احتساب کی روشن مثال کے طور پر یاد رکھا جائے گا اور آئیندہ کسی فوجی آفیسر کو یہ جرات نہیں ہوگی کہ وہ فوجی نظم و ضبط اور نظم و نسق کو پامال کرے۔ کرنل صاحب نے کہا کہ جنرل فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کا فیصلہ کسی فرد واحد کا نہیں بلکہ پورے عسکری ادارے کا ہے ۔ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور سابق ڈی جی ائی ایس ائی جنرل فیض حمید نے جس افسوسناک اور شرمناک انداز سے ریاست اور حکومت کو چلایا وہ عسکری تاریخ کا ایک افسوناک باب ہے ۔ ان کی کھلم کھلا سیاسی سرگرمیوں نے نہ صرف سیاست جمہوریت حکومت کو نقصان پہنچایا بلکہ ریاست کے وقار کو بھی پوری دنیا میں مجروح کر دیا ۔ شاندار نظم و ضبط اور معیاری کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کی وجہ سے پاک فوج کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں کیا جاتا ہے ۔ افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ سابق آرمی چیف اور سابق ڈی جی ائی ایس ائی نے پاکستان کے وقار کا ذرہ بھر بھی خیال نہ رکھا ۔ پاک فوج کے اندر خود احتسابی کی روایت کو قائم رکھنے کے لیے لازم ہو گیا تھا کہ جنرل فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کیا جائے۔ پاک فوج کا یہ ادارہ جاتی فیصلہ ہے کہ کسی سابق آرمی چیف کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی ۔ بعض دفاعی مبصرین کے مطابق پاکستان کے آرمی چیف کی حیثیت وائسرائے کی ہوتی ہے جو آئین و قانون اور احتساب سے ماوراءہوتا ہے اور اسے خصوصی استثناءحاصل ہوتا ہے۔
الیکٹرانک سوشل اور پرنٹ میڈیا میں جنرل فیض حمید کے خلاف کاروائی کا فیصلہ ہاٹ ایشو بن چکا ہے جس کے بارے میں مختلف نوعیت کے تبصرے کیے جا رہے ہیں ۔ اس سلسلے میں مختلف نوعیت کے امکانات اور خدشات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے ۔ بعض دانشوروں کا خیال ہے کہ جنرل فیض حمید کے خلاف کاروائی محض ایک ڈرامہ ہے اور اس کا نشانہ صرف عمران خان ہے ۔ میرے خیال میں یہ تاثر درست نہیں ہے ۔ جنرل فیض حمید کے خلاف سنجیدہ سوچ بچار کے بعد اور اتفاق رائے کے ساتھ کاروائی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نون کے مرکزی رہنما اور صدر میاں نواز شریف آج کل ذاتی اور سیاسی مصلحتوں کی بنا پر خاموش ہیں مگر باخبر صحافیوں کے مطابق جنرل فیض حمید کے خلاف کاروائی میں ان کی صدر پاکستان آصف زرداری کی آشیر باد بھی شامل ہے کیونکہ میاں نواز شریف کئی مواقع پر برملا یہ کہہ چکے ہیں کہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض حمید کا احتساب ہونا چاہیے جس کا ریکارڈ میاں نواز شریف کی ویڈیوز کی صورت میں موجود ہے ۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو کے مطابق پاکستان کے سابق وزیراعظم نے اپنے دور اقتدار میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل جنرل فیض حمید کی تعریف اور خوشامد کا نیا ریکارڈ قائم کر دیا تھا ۔ پاکستان کے کسی وزیراعظم نے سینئرجرنیلوں کی اس قدر تعریف کبھی نہیں کی تھی ۔ عمران خان نے 2018 کا انتخاب کرپشن اور احتساب کے نعرے پر جیتا تھا ۔ افسوس جب اس وقت کے ڈی جی ائی ایس ائی اور موجودہ آرمی چیف عاصم منیر نے وزیراعظم عمران خان کو پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی کرپشن کے بارے میں آگاہ کیا تو عمران خان نے ان کو عہدے سے ہٹا دیا ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عمران خان عوامی دباو کے ذریعے کوشش کرتے رہے کہ سید عاصم منیر پاکستان کے آرمی چیف نہ بن سکیں ۔ پاکستان افواہوں کی منڈی ہے جس میں صبح شام افواہیں پھیلائی جاتی ہیں ۔ ایک افواہ کے مطابق جنرل فیض حمید کو 9 مئی کے افسوسناک واقعات کے مقدمے میں عمران خان کے خلاف سلطانی گواہ بنا دیا جائیگا ۔ یہ افواہ بے بنیاد ہے کیونکہ اس تجویز پر اگر عمل کیا جانا ہوتا تو وہ آج تک ہو چکا ہوتا ۔ عسکری قیادت کبھی نہیں چاہے گی کہ پاکستان کے مقبول ترین لیڈر کا ٹرائل فوجی عدالت میں کیا جائے جس سے پاک فوج اور عوام کے درمیان خلیج مزید بڑھ جائے ۔ جنرل فیض حمید اگر اپنے خلاف الزامات کو تسلیم کر کے معذرت کر لیں تو ان کی سزا کو کم بھی کیا جا سکتا ہے ۔ کورٹ مارشل کے فیصلے کے بعد جنرل فیض حمید پاکستان کے آرمی چیف کے پاس اپیل بھی کر سکتے ہیں اور اس کے بعد وہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں بھی اپیلیں دائر کر سکتے ہیں ۔ اگر موجودہ حکومت نو مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی تفتیش کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانے پر متفق ہو جائے تو حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مفاہمت کے دروازے کھل سکتے ہیں ۔ اس مفاہمت کے نتیجے میں ایک قومی حکومت تشکیل دی جا سکتی ہے جس میں تحریک انصاف کے وزیر بھی شامل ہوں گے ۔ اس مفاہمت کے بعد عمران خان سمیت تحریک انصاف کے تمام سیاسی اسیروں کو رہا کر دیا جائیگا ۔ تحریک انصاف پارلیمانی کردار ادا کرنے پر رضامند ہو جائے گی پاک فوج کے خلاف تنقیدی پروپیگنڈا بند کر دیا جائے گا اور 2026 میں نئے الیکشن کمیشن کی نگرانی میں شفاف انتخابات کرا کر عوام کے مینڈیٹ کے مطابق نئی حکومت تشکیل دی جائےگی ۔ پاکستان کے سیاسی اور معاشی استحکام کے لیے یہ مفاہمت قومی ضرورت بن چکی ہے ۔ پاکستان کے دوست ممالک عالمی اور پاکستانی سرمایہ کار بھی مفاہمت پر زور دے رہے ہیں ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جنوری میں اپنے منصب کا حلف اٹھائیں گے اور ان کی یہ خواہش ہوگی کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مفاہمت کی صورت پیدا ہو جائے ۔ مجھے محترمہ بے نظیر بھٹو کی سیاسی بصیرت اور دانش پر مبنی یہ بات یاد آرہی ہے انہوں نے کہا تھا نظامی صاحب کامیاب لیڈر وہ ہوتا ہے کہ اسکے سامنے اگر پہاڑ آ جائے تو وہ اس سے ٹکرانے کی بجائے اپنے عوام کے لیے اس میں سے راستہ بنا کر آگے نکل جائے ۔ بدقسمتی سے دنیا کے ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں سیاست اور جمہوریت غیر معیاری ہے جس کی وجہ سے حکومت اور اپوزیشن دونوں جمہوری اصولوں کی پاسداری نہیں کرتے اور انتہا پسندی پر مائل رہتے ہیں ۔ اگر مفاہمت پر سنجیدگی سے غور نہ کیا گیا تو پاکستان اور سٹیک ہولڈرز سخت خسارے میں رہیں گے۔

ای پیپر دی نیشن