شام میں بشار الااسد حکومت کے 24 سالہ اقتدار کا خاتمہ باغیوں کی جس تحریک کے نتیجہ میں اپنے انجام کو پہنچا اسکی ابتدا درحقیقت عرب سپرنگ کی احتجاجی لہر سے ہی شروع ہوچکی تھی جسکا آغاز 17 دسمبر 2010 میں تیونس سے ہوا تھااور دیکھتے ہی دیکھتے مشرق وسطی میں ایک کے بعد ایک عرب بادشاہ کی حکومت گرنے لگی تھی۔ تیونس کے صدر زین العابدین ,الجیریا کے صدر عبدالعزیز‘ لیبیا کے صدر معمر قزافی‘ یمن کے صدر عبدالہ صالح‘ مصر کے صدر حسنی مبارک سب کوعوام کی طاقت کے سامنے اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا تاہم عوامی جدوجہد کے نتیجے میں بشاالااسد کو اقتدار سے الگ کرنے کیل۔ 14 سال بیت گ۔ ان چودہ برسوں میں عوام کا بے پناہ استحصال کیا گیا۔شام کی تباہی کے مناظر ساری دنیا نے دیکھے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کیمطابق چودہ برسں کی خانہ جنگی میں ایک کروڑ چالیس لاکھ لوگ بے گھر ہو۔ تقریباً 55 لاکھ پناہ گزین قریبی ہمسایہ ملکوں ترکیہ‘ لبنان‘ اردن‘ عراق‘ مصر‘ میں پناہ لینے پر مجبور ہو۔ جرمنی سب سے بڑا ملک ہے جہاں 8لاکھ 50 ہزار شام کے پناہ گزینوں نے پناہ لی جبکہ 72 لاکھ شہری اندرونی طور پر ملک کے اندر بے گھر ہوئے۔ مذکورہ رپورٹ کیمطابق شام کی 90 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے جا چکی ہے جبکہ 70 فیصد آبادی انسانی ہمدردی کے تحت مدد کی منتظر ہے۔
بشارالاسد اگر اول دن سے ہی باغیوں کیساتھ معاملات ڈائیلاگ کے زریعے طے کر لیتے اور انکے لی۔ سیاست میں سپیس فراہم کرتے تو نہ شام تباہ ہوتا اور نہ اسد اقتدار کا خاتمہ ہوتا لیکن کیا کیا جا۔ طاقت کا نشہ ہی ایسا ہوتا ہے کہ انسان خود اپنے ہاتھوں اپنی تباہی کا سامان فراہم کرتا ہے۔شام کی تباہ حالی کے بعد اگرچہ باغیوں کے سب سے بڑے گروپ حیات تحریر شام کے سربراہ ابو محمد الگولانی کو بظاہر ہر طرف خوش آمدید کہا جارہا ہے تاہم آنے والے دنوں اور ہفتوں میں شام ایک بڑے بحران کا شکار ہوسکتا ہے کیونکہ شام کے اندر بہت سارے تضادات موجود ہیں امریکہ اور اسرائیل ان تضادات کو مزید ابھاریں گے۔یہ سوالات بھی اپنی جگہ موجود ہیں کہ شام کی تعمیر نو کیلئے کروڑ ہا ڈالرز کہاں سے آئیں گے؟ شام کا مستقبل کیا ہوگا؟ شام کے بحران سے مشرق وسطی اور عالمی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہونگے؟ شام کے بحران کا سب سے بڑا بینیفشری کون ہے؟ ان تمام سوالات کے جوابات تلاش کرنا ہمارے لیے اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگر شام کا بحران ایران‘اسرائیل ‘امریکہ‘ روس‘ سعودی عرب‘ مصر اور چین پر اپنے اثرات مرتب کرتا ہے تو ہم بھی اس سے متاثر ہو۔ بغیر نہیں رہ سکتے۔!
بینیفشری کی بات کریں تو شام کے بحران کا سب سے بڑا بینیفشری اسرائیل نظر آتا ہے۔شام کی فوج کے باغیوں کے آگے سرنڈر کرنے کیساتھ ہی نیتن یاہو نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ کہ وہ گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیں اور بفر زون پر اپنا کنٹرول سنبھال لیں جو 1974 میں سیز فائر کے نتیجہ میں ہونے والے معاہدہ کے تحت شام کے پاس چلا گیا تھا تاہم نیتن یاہو نے یہ کہ کر ان پہاڑیوں پر دوبارہ قبضہ کر لیا ہےکہ دہائیوں پرانا معاہدہ اب متروک ہوچکا ہے۔نیتن یاہو کے حکم پر اسرائیلی ڈیفینس فورسز شام کے اندر فضائی حملے بھی کر رہی ہیں اور درالحکومت دمشق سے فقط 24 کلو میٹر دور اسرائیل کا بفر زون کے علاقہ کے ارد گرد مکمل قبضہ ہوچکا ہے اگرچہ برطانیہ اور امریکہ یہ بیان بھی جاری کرتے ہیں کہ اسرائیل کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تاہم یہ باتیں فقط بیان جاری کرنے کی حد تک ہوتی ہیں جبکہ درپردہ ایسا کرنے میں اسرائیل کو عالمی طاقتوں کی ہر معاملہ میں بھر پور حمایت حاصل ہوتی ہے۔
اسرائیل کو شام کے بحران کا ایک اور فائدہ یہ ہوا ہے کہ ”معاہدہ ابراہیم“ کی راہ میں شام رکاوٹ تھا اور بشارالا اسد حکومت کے خاتمے کے بعد اب یہ رکاوٹ بھی ختم ہوگئی ہے۔کیونکہ ”معاہدہ ابراہیم “ کے بنیادی اراکین میں عرب ریاستیں ہی شامل ہونگی جبکہ عرب امارات اور بحرین اسی معاہدہ کے تحت پہلے ہی اسرائیل کا وجود تسلیم کر چکے ہیں۔ اسرائیل یہ سمجھتا ہے کہ ”معاہدہ ابراہیم“ کے تحت وہ تمام عرب ریاستوں کو فلسطین کے ایشو پر کنٹرول کر سکے گا ۔
شام کے بحران کا دوسرا بڑا بینیفشری امریکہ ہے کیونکہ وہ اپنی من پسند حکومت قائم کر سکے گا جو امریکی مفادات کیلئے کام کریگی۔اس وقت امریکہ کا سرفہرست ایجنڈا چین کے بڑھتے ہو۔ اثرو رسوخ کو روکنا ہے۔ ترکیہ کیل۔ اگرچہ امریکی اثرو رسوخ میں اضافہ تشویش کا باعث ہے تاہم ترکیہ کو ایک فائدہ ضرور ہوا ہے کہ وہ شامی پناہ گزینوں کو واپس شام میں بھیج سکے گا۔
وہ ممالک جو بشارالا اسد حکومت کے خاتمہ سے متاثر ہو۔ ہیں ان میں ایران‘ لبنان‘ روس‘ چین‘ اور فلسطین شامل ہیں۔ ایران اور لبنان اس وجہ سے متاثر ہو۔ ہیں کہ لبنان کو ایران کی امداد شام کے راستے پہنچتی تھی جسکا راستہ ایک طرح سے بند ہو گیا ہے۔شام کی ریاست کو سیاسی و معاشی اعتبار سے تعمیر نو کی ضرورت آن پڑی ہے شام مزید تباہی سے فقط ایک ہی صورت میں بچ سکتا ہے کہ ریاست کے تمام گروپوں کو ساتھ ملا کر کثیر الجہتی جمہوری ریاست قائم کی جا۔ جہاں تمام مذاہب‘ فرقے‘ اور مختلف نسل کے گروپس آزادای سے زندگی بسر کر سکیں تاہم اگر ایسا نہ کیا گیا تو مختلف گروپس طاقت کے حصول کیل۔ ایک دوسرے سے لڑتے رہیں گے اور ریاست میں ہر طرف جنگجو نظر آئیں گے اور شام کی تباہ کن حالت لیبیا اور عراق سے مختلف نہیں ہوگی جہاں لاکھوں افراد خانہ جنگی کی نظر ہوچکے ہیں ۔
شام کی خانہ جنگی میں ہمارے لیے بھی غوروفکر کا بڑا سامان میسرہے بشرطیکہ ہم میں سیکھنے کی آرزو اور تڑپ ہو۔ سب سے اہم سبق یہ ہے کہ اگر ملک میں معاشی سرگرمیاں نہ ہوں تو حکومت عوام کو ڈلیور نہیں کر سکتی نتیجتاً ایسی حکومت عوام سے کٹ جاتی ہے۔ اگر حکومت عوام کی حمایت کھو دے تو سائنسی اصول کے مطابق اسکے گرنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے اگرچہ یہ عمل سست رفتار سے آگے بڑھتا ہے۔ حکومت اور عوام کے درمیان تضادات گہرے سے گہرے ہوتے جاتے ہیں اور اگر ان تضادات کو باہم مل بیٹھ کر طے نہ کیا جا۔ تو تضادات از خود حل پزیری کیل۔ خوفناک شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ تضادات کو شعوری سطح پر حل کرنا یا اسے جبر کے حالات کے سپرد کردینا ؟ دونوں صورتوں میں چوائس ملکی سلامتی کے ضامن اداروں کے پاس ہے قومی سلامتی کا تقاضا ہے کہ تمام تضادات کا شعوری سطح پر حل نکالا جائے!