شام کے بشارالاسد کے اقتدار کی شب 

نو منتخب امریکی صدر ٹرمپ ابھی پہلی بار بھی صدر نہیں بنے تھے۔یہ 25 اکتوبر 2015ءکو ان کا این بی سی ٹی وی کو دیا گیاانٹرویو ہے جس میں انھوں نے کہا تھا ، آج صدام حسین اور معمر قذاقی اپنے اپنے ملک میں پاور میں ہوتے تو دنیا زیادہ سٹیبل ہوتی۔ یہ وہی دور ہے جب بشار الاسد کے خلاف مظاہرین پر کیمیکل کے استعمال کے الزام لگ رہے تھے۔ ٹرمپ نے بشار الاسد کو بٹائے جانے کی کوششوں پر سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ان کی جگہ بشارالاسد سے بھی برا شخص آ سکتا ہے۔ ٹرمپ نے اس انٹرویو میں وضاحت نہیں کی تھی کہ قذاتی اور صدام کے طاقت میں ہونے پر دنیا کیسے زیادہ محفوظ ہوتی۔ شام کی صورتحال بشار الاسد کے فرار کے بعد مزید بگڑ گئی ہے۔
صدام اور کرنل قذاتی کو بدترین حالات کا سامنا تھا۔ وہ چھپ تو گئے تھے مگر اپنے ملک اورا پنے لوگوں کے درمیان ہی رہے۔ شاید ان کو اچھے حالات کا انتظار تھا، جیسے شاہ ایران محمد رضا شاہ پہلوی کے صاحبزادے رضا پہلوی کو ایران میں تخت نشیں ہونے کے خواب آتے ہیں۔ بر سبیل تذکرہ شاہ ایران کے والد کا نام رضاشاہ پہلوی ہے جو ایران میں اس خاندان کی بادشاہت کے بانی تھے۔تینوں کے معمولی فرق کے ساتھ ایک جیسے نام تھے۔ بشار الاسد شام سے اشرف غنی کی طرح چھپ کر نکل گئے۔ حسینہ واجد بنگلہ دیش سے نکال دی گئیں۔ ان تمام کی طرف سے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا گیا۔ جس روز یعنی 8دسمبر2024ءکا سورج طلوع ہونے سے الاسد خاندان کے اقتدار کا سورج 50سال سے بھی زیادہ عرصہ کے سیاہ و سفید کے مالک رہنے کے بعد ڈوب گیا۔صدر بشار الاسد کواپنے ملک سے فرار ہو کر روس میں پناہ لینا پڑی۔
موت برحق ہے۔ اس سے کوئی ڈرے یا نہ ڈرے سب کو موت کا یقین ہے۔ کوئی نہیں کہتا کہ کبھی نہیں مرنا مگر اکثر سوچتے ہیں ابھی نہیں مرنا۔ ’یہ ابھی نہیں‘ کو لے کر انسان سو برس کا سامان کرتا ہے۔ اقتدار کی بات ہو تو شاید نسلوں تک حکمرانی کے خواب دیکھتا ہے۔ اگر قدرت نے کسی کو قدرت دی ہے تو طویل حکمرانی کی پلاننگ میں حرج ہی کیا ہے مگر جو انسانیت کے لیے ہو ،نہ کہ کسی کی قبر پر محل تعمیر کر کے ڈانسنگ گریو بنا دی جائے جیسے شردھا نند نے اپنی اہلیہ شاکرہ خلیلی کو زندہ دفن کر کے سنگ مر مر کا اوپر فرش بچھوا کر پکڑے جانے تک شہنائیوں کی گونج میں اڑھائی سال تک رقص کرتا اور کراتا رہا۔ جو حکمران انسانیت کے لیے کام کرتے ہیں۔ انسان ان کو کڑے وقت میں بچانے کے لیے جانوں پر کھیل جاتے ہیں۔ ترکی میں طیب اردگان کی مقبولیت جرنیلوں کے سروں پرچڑھ کر بولتی ہے۔ ترک عوام کے سامنے جرنیل سرنڈر کرگئے۔ بشارالاسد کو لوگ بچانے نہ نکلے۔ اشرف غنی سر نیچا کر کے جہاز میں بیٹھے اور کئی ماہ بعد منظر عام کر آئے۔ حسینہ واجد کو اب کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ اپنے کرموں کا پھل ہے جو آپ کہیں بھی بیٹھ کر کھا سکتے ہیں۔
حافظ الاسد سے بات شروع کرتے ہیں: 10 جون 2000ءکو سوریہ کے صدر حافظ الاسد طویل بیماری کے بعد 70 سال کی عمر میں انتقال کر گئے تھے۔ جنرل حافظ الاسد 1964ءمیں سوریہ کی فضائیہ کے کمانڈر کے عہدے پر فائز ہوئے۔تین سال بعد وزیر دفاع بنے۔ 1970ءمیں انھوں نے بغاوت کے ذریعے سوریہ کا اقتدار اپنے ہاتھ میں لیا اور پھر بعث پارٹی کے لیڈر منتخب ہوئے۔ ایک سال کے بعد وہ ریفرنڈم کے ذریعے صدر بنے اور پھر کئی ریفرینڈموں کے ذریعے آخری دم تک عہدہ¿ صدارت پر رہے۔ صہیونی حکومت کی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا اور ایران جیسے، صہیونیت مخالف ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرنا، حافظ الاسد کے دور کی خارجہ پالیسی کی خصوصیات میں شامل ہیں۔ حافظ الاسد کے بعد ان کے بیٹے بشار اسد کو صدر منتخب کیا گیا۔ انھوں نے بھی اپنے والد کی پالیسیوں کو آگے بڑھایا خطے میں جاری صہیونیت مخالف محاذ میں سوریہ کے بنیادی کردار کو محفوظ رکھا جو امریکا، اسرائیل اور خطے میں ان کے حامی ممالک کو ایک آنکھ نہیں بھایا چنانچہ صدر بشار اسد کو ایک ایسی خانہ جنگی کا سامنا کرنا جس میں ترکی، سعودی عرب اور قطر سمیت کئی دیگر ممالک کا ہاتھ نمایاں تھا۔ بالآخر وہ جنگ ہار گئے۔انکی کئی سال حکمرانی کرنے کی پلاننگ بھی دھری کی دھری رہ گئی۔
دس سالہ حکمرانی کی پلاننگ سکندر مرزا نے بھی کی۔ ایوب خان بھی نہیں جانا چاہتے تھے۔ یحییٰ خان کی ان سے بھی طولِ اقتدار کی بڑی حسرت و جستجو تھی۔ جنرل ضیاءالحق زندگی کی آخری سانس تک یونیفارم میں اقتدار میں رہنا چاہتے تھے ان کی خواہش پوری ہو گئی مگر وہ ابھی مرنا نہیں چاہتے تھے۔ بے نظیر بھٹو کو اقتدار سے دور رکھنے کی حسرت دل میں لیے ہوئے تھے۔ بات لمبی نہیں کرتے، سکندر مرزا نے اس دور کی اپوزیشن سے نجات کے لیے اس وقت تک مارشل لاءلگانے کا بندوبست کر لیا جب تک ’فاتح رعایا‘ کا یقین نہ ہو جائے۔8اکتوبر کو مارشل لاءلگایا جس کی چھتری تلے26اکتوبر تک بیٹھ سکے۔ اسکے بعد چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر کمانڈران چیف جنرل ایوب خان نے یہ چھتری چھینی اور اپنے اوپر تان لی۔سکندر مرزا نے اپنی صدارت کے دوام کے لیے انڈیا سے وزیر اعظم بھی امپورٹ کر لیا تھا۔ ان کے خان آف قلات احمد یار خان رازدان تھے۔ ایک دن رازداری سے ان سے مرزا صاحب نے کہہ دیا کہہ میرے راستے میں ایوب خان آئے تو انھیں ختم کر دوں گا۔ یہ بات خان آف قلات نے ایوب خان کو بتا دی تو چراغوں میں روشنی تو نہ رہی لیکن خان صاحب کو سکندر مرزا نے لاہور میں قید کر دیا۔ نواب آف بھوپال سر حمید اللہ کی سکندر مرزا سے قبل احمد یارخان سے ملاقات ہوگئی۔ ان کو مرزا کی پلاننگ سے آگاہ کیا تو وہ سکندر مرزا سے خوشگوار ملاقات کے بعد وہ واپس بھارت چلے گئے۔ہر جگہ ہر مرتبہ آمرانہ نظام پائیدار نہیں ہوتا۔ دنیا کا مختصر ترین چھے گھنٹے کا مارشل لاءیون سک یول نے جنوبی کوریا میں لگایا۔پارلیمنٹ نے مواخذے کے ذریعے ان کو نکالنے کی کوشش کی۔ اس سے وہ سر دست بچ گئے۔ان کے اختیارات محدود کر دیے گئے ہیں۔وہ ملک سے باہر بھی نہیں جا سکتے گویا رسوائیاں شروع ہو چکی ہیں۔
مسلم لیگ ن کے بڑے لیڈر کہتے ہیں کہ جنرل باجوہ ان سے ملاقات میں کہا کرتے تھے۔’ عمران خان دس سال حکومت میں رہنے کی پلاننگ کر چکے ہیں۔ وہ جنرل فیض حمید کو آرمی چیف بنانا چاہتے ہیں۔ دس سال لیگی لیڈر جیلوں سے باہر آنے کا نہ سوچا کریں۔‘ اس پر ہم نے اپریل2020ءکو حکومت میں آنا قبول کر لیا۔ عمران خان اس کی پلاننگ کی تردید کرتے ہیں۔ جنرل فیض حمید کو بھی آرمی چیف بننے کا یقین تھا۔ جنرل عاصم منیر کا نام سامنے آیا تو جنرل فیض حمید نے اسی روز ریٹائرمنٹ لے لی حالانکہ یہ نئے آرمی چیف سے سینئرنہیں تھے۔کہاں آرمی چیف بننے کے خواب کہاں اب کورٹ مارشل کے سامنے کا عذاب! آج کی حکمران ایلیٹ بھی مبینہ طور کچھ ایسی پلاننگ کر رہی ہے۔ کوئی ان کی پلاننگ کو10سال اور کوئی26ویں آئینی ترمیم کے تناظر میں 20سال پر محیط قرار دیتا ہے۔اگر ان پر برا وقت آتا ہے تو کیا ان کی کارکردگی اور کارنامے طیب اردگان جیسے ہیں کہ ان کے تحفظ، ان کے اقتدار کے دوام و بقاءکے لیے لوگ سڑکوں پر نکل کر بکتر بند گاڑیوں کے آگے لیٹ جائیں گے؟

ای پیپر دی نیشن