کلامِ اقبال قائد اعظم کی نظر میں

بابائے صحافت جناب مجید نظامی کے بڑے بھائی جناب حمید نظامی نے نوائے وقت کے اُس وقت دو مقاصد بیان کیے تھے۔ ایک تو اُردوزبان کی خدمت اور دوسرا کلامِ اقبال کو عام کرنا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے نوائے وقت آج بھی اپنی یہ ذمہ داریاں بطریقِ احسن ادا کررہا ہے۔ کلامِ اقبال کی عظمت کا کون معترف نہیں؟ اگریہ کہا جائے کہ فکرونظر اورافکار و تصورات کے لحاظ سے علامہ اقبال شجر سایہ دار کی صورت اختیار کر چکے ہیں تو اِسے مبالغہ نہ سمجھا جائے۔ کبھی کبھی تو یُوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے علامہ اقبال کے افکار و تصورات کو ”ڈیپارٹمنٹل سٹور“ میں تبدیل کر دیا ہے۔ ایسا ”ڈیپارٹمنٹل سٹور“ جہاں سے ہر گاہک اپنی پسند کی اشیاءاُٹھا لیتا ہے ۔ اس امرکے باوجود کہ .... مال ہے نایاب پرگاہک ہیں اکثر بے خبر۔
حالی نے تو یہ اپنی ”دوکان“ کے بارے میں کہا تھا لیکن علامہ اقبال کی دوکا ن کا بھی کچھ ایسا ہی عالم نظر آتا ہے کہ ”لوٹ سیل“ کے باوجود بھی بیشتر گاہک خریدے مال کی قدروقیمت اور معیار سے بے خبرہی رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہر طرح کے سیاسی نظریات کے حامل سیاستدان، مسجدوں کے مُلّا، حکمران، بیوروکریٹ اور دائیں بائیں کے دانشور اپنے اپنے مخصوص مقاصد کی تائید میں اقبال کے اشعار پڑھتے نظر آتے ہیں۔
میں ذاتی طور پر اس بات کا قائل ہوں کہ کلام اقبال کے جزوی مطالعہ اور صرف اپنے مطلب کے اشعار کا حوالہ دینے کے برعکس ضرورت اس امر کی ہے کہ کلامِ اقبال کا کُلّی مطالعہ کیا جائے یعنی فکرِ اقبال کی اساس دریافت کرنے کے بعد اِس کی روشنی میں اقبال کے جملہ تصورات کا مطالعہ کیا جائے۔ اسی صورت میں کلامِ اقبال کا درست تناظر میں مطالعہ کیا جا سکتا ہے اور پھر اس کی روشنی میں ہم انفرادی اور اجتماعی رویّوں کا تعین کر سکتے ہیں۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کلامِ اقبال کا درست تناظرمیں مطالعہ کرنے کے برعکس اور اِن کی فکر کی گہرائی کی غواصّی نہ کرتے ہوئے ہمارے دانشور صرف ساحل سے ہی لہروں کا تماشا کرتے ہیں۔ فکرِ اقبال بحرِ ذخار ہے اس سے کیا حاصل کر سکتے ہیں یہ ہماری اپنی علمی استعداد پر منحصر ہے .... سنگریزے یا موتی؟
آئیے دیکھتے ہیں کہ قائد اعظم جن کے بارے میں مخالف بھی کہتے ہیں کہ اس شخص نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ وہ اقبال اور کلامِ اقبال کو کس کسوٹی پر پرکھتے ہیں اور کس مقام سے نوازتے ہیں۔ 26دسمبر 1938ءکو آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس بمقام پٹنہ میں صدارتی تقریر کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا : ”علامہ محمد اقبال میرے ذاتی دوست تھے اور اُن کا شمار دنیا کے عظیم شعراءمیں ہوتا ہے۔ وہ اس وقت تک زندہ رہیں گے جب تک اسلام زندہ رہے گا۔ ان کی عظیم شاعری ہندوستانی مسلمانوں کی خواہشات کی صحیح عکاسی کرتی ہے۔ ا ن کی شاعری ہمارے لیے اورہماری آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ کا کام دے گی۔“
کلامِ اقبال کی عظمت کا اعتراف تو قائد اعظم نے 1940ءکے یومِ اقبال کی دوسری نشست کی صدارت کرتے ہوئے اِن الفاظ میں بھی کیا تھا۔ قائد اعظم نے فرمایا : ”کارلائل نے شیکسپیئر کی عظمت کا ذکر کرتے ہوئے ایک انگریز کا ذکر کیا کہ اسے جب شیکسپیئراور دولتِ برطانیہ میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کا اختیار دیا گیاتو اس نے کہا میں شیکسپیئر کوکسی قیمت پر نہ دُوں گا۔“ یہ بیان کر کے قائد اعظم نے ارشاد فرمایا : ”گومیرے پاس سلطنت نہیں لیکن اگرسلطنت مِل جاتی اور اقبال اورسلطنت میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کی نوبت آئے تو میں اقبال کو منتخب کروں گا۔“
اسلامی تعلیمات سے علامہ کوجس قدر اُنس تھا یہ بات تو عالمِ اسلام پر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے اس کا اندازہ بھی قائد اعظم کے کلمات سے لگائیے جو کہ انھوں نے 2مارچ 1941ءکو پنجاب یونیورسٹی میں یومِ اقبال کے موقع پر کہے۔ قائد اعظم نے فرمایا : ”اس حقیقت کو میں سمجھتا ہوں کہ اقبال مرحوم دنیا کے بہت بڑے سیاست دان تھے۔ انھوں نے آپ کے سامنے ایک واضح اور صحیح راستہ رکھ دیا ہے جس سے بہتر اور راستہ نہیں۔ مرحوم دورِ حاضر میں اسلام کے بہترین شارح ہیں کیوں کہ اس زمانے میں اقبال سے بہتر اسلام کو کسی شخص نے نہیں سمجھا۔ اِس پرمجھے فخر ہے کہ اُن کی قیادت میں ایک سپاہی کی حیثیت سے کام کرنے کا مجھے موقع مِل چکا ہے۔ میں نے اُن سے زیادہ وفادار رفیق اور اسلام کا شیدائی نہیں دیکھا۔“
قائد اعظم نے 1944ءمیں تقریب یومِ اقبال کے موقع پرعلامہ اقبال کو جس قدر خراجِ تحسین پیش کیا ان میں یہ کلمات بھی شامل تھے۔ قائد اعظم نے فرمایا : ”اگرچہ اقبال ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن ان کا غیر فانی کلام ہمارے دلوں کو گرماتا رہے گا.... ان کی شاعری جو کہ حُسنِ بیان کے ساتھ حُسنِ معانی کی بھی آئینہ دار ہے اس عظیم شاعر کے دل و دماغ میں ان پنہاں جذبات، حسیات اور افکار کی بھی عکاسی کرتی ہے جن کا سرچشمہ اسلام کی سرمدی تعلیم ہے۔ اقبال پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سچے اورمخلص پیرو کار تھے۔ وہ اوّل و آخر مسلمان تھے۔“
بخوفِ طوالت قائد اعظم کے انھی اقتباسات پر اکتفا کرتا ہوں۔ بخدا آج ہماری فکر کا رِشتہ اپنی تہذیبی روایت سے ٹوٹ گیا ہے۔ تہذیبی روایت سے ٹوٹا رشتہ جوڑنے کا نسخہ پروفیسر فتح محمد ملک یہ بتاتے ہیں کہ علامہ اقبال سے رجوع کیا جائے۔ ہمارے تہذیبی ورثے کا سب سے مقدس حصّہ وہ ہے جو اقبال کی فکر او رقائد اعظم کی فکر سے عبارت ہے مگر دِقت یہ ہے کہ تعلیمی اداروں اور ابلاغ کے اداروں نے اقبال پرقینچی بہت چلائی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ پورا اقبال اِن اداروں کو راس نہیں آتا۔ اس سے مخصوص مفادات پرزَد پڑتی ہے۔ پھر قینچی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ پس فتح محمد ملک جب اقبال کی بات کرتے ہیں تو اُن کا مطلب ہوتا ہے پُورااقبال۔

سید روح الامین....برسرمطلب

ای پیپر دی نیشن