شام کا یہ حال کیوں ہوا؟

Dec 14, 2024

علی انوار

شام میں اسد خاندان کا پچاس سالہ اقتدار ایک ہی ہفتے میں زمین بوس ہو چکا ہے اور کل کے باغی آج شام کے حکمران بن گئے ہیں۔بنیادی طور پر شام کے واقعے میں بہت سے سبق پوشیدہ ہیں۔ جب تیونس میں 2011 میں ایک سبزی فروش نے حکومتی حکام کی جانب سے ذلت آمیز رویے کے بعد خود کشی کی تو پورے عرب میں پشتینی حکمرانوں کیخلاف ایک مہم کا آغاز ہوا اور اس دوران مصر میں حسنی مبارک کا اقتدار ختم ہوا تو دوسری جانب لیبیا میں کرنل قذافی کے ملک کو غیر ملکی طاقتوں نے تختہ مشق بنا لیا اور آج وہ لیبیا جو پورے افریقہ کا سب سے زیادہ خوشحال ملک تھا کئی ٹکڑوں میں بٹا ہوا ہے اور لوگ اب کرنل قذافی کے دور کو یاد کر کے روتے ہیں۔اسی عرب سپرنگ کے اثرات شام میں بھی محسوس کئے گئے کیوں کہ وہاں بھی حافظ اسد کے تیس سالہ دور اقتدار کے بعد ان کے بیٹے بشار الاسد حکمرانی کر رہے تھے لیکن لوگ ان کے طرز حکمرانی سے تنگ تھے کیوں کہ حافظ اسد کی وفات کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ ان کے بیٹے شاید طرز حکمرانی میں تبدیلی لائیں گے اور لوگوں کو ترقی کے مواقع ملیں گے اور کوئی گھروں سے غائب نہیں ہو گا اور لوگوں کو شخصی آزادی میسر ہو گی لیکن حافظ اسد کی طرح بشار الاسد نے بھی فوج کو اپنے مخالفین کی گوشمالی کیلئے استعمال کیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں کے اندر لاوا پکتا رہا اور جب عرب سپرنگ کا اغاز ہواتو شام میں بھی جو لوگ بشار الاسد کے مظالم سے تنگ تھے انہوں نے بھی بشار الاسد کیخلاف بغاوت کا آغاز کر دیا۔پھر کیا ہوتا ہے کہ شام میں خانہ جنگی شروع ہو گئی، ایک کروڑ سے زائد شامی اپنے ہی ملک میں در بدر ہو گئے اور دس لاکھ سے زائد لوگ مارے گئے لیکن بشار االاسد کو چونکہ روس اور ایران کی مدد حاصل تھی اور اس کے ساتھ کچھ قوتیں چاہتی تھیں کہ بشار الاسد اقتدار میں رہے، تو دس سال بشار الاسد نے اپنی ہی عوام کو بمباری کا نشانہ بنایا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی فوج لڑائی سے تنگ آ گئی۔کیوں کہ شام میں ملیشیاو¿ں کا راج شروع ہو چکا تھا ۔
اگرچہ بشارالاسد شام کی نمائندہ حکومت کا چہرہ تھے لیکن شام کئی ٹکڑوں میں بٹ چکا تھا، ایک جانب داعش اور القاعدہ کے دہشت گرد اسد کی فوج کیلئے درد سر بنے ہوئے تھے تو دوسری طرف کرد شامی جنگجوو¿ں نے اپنی ایک الگ سلطنت قائم کر لی اور بشار الاسد صرف دمشق کے حکمران بن کر رہ گئے۔اور بشار الاسد غیر مکی طاقتوں کے بل پر بارہ سال طویل عرصہ تک اپنے ہی لوگوں سے لڑتے رہے اور اس کا نتیجہ کیا ہوا کہ اپنی فوج کو مضبوط نہ کیا اور غیر ملکی طاقتوں پر ان کا بھروسہ زیادہ رہا جبکہ ان کی اپنی فوج ایک کمزور فوج میں تبدیل ہو چکی تھی۔جس میں لڑنے کی سکت نہیں رہی تھی کیوں کہ بارہ سال سے اسے الجھائے رکھا اور نہ تو فوج کو جدید سہولیات سے اراستہ کیا گیا اور نہ ہی فوج کی اس طرح کی ٹریننگ کی گئی ہ وہ باغیوں سے خود نبرد آزما ہو سکے جبکہ روس کی فضائیہ پر بشارالاسد کا زیادہ انحصار رہااور اپنی فوج کو مضبوط کرنے کیلئے کوئی کام نہ کیا گیا۔بشار الاسد کا خیال تھا کہ اس بار بھی روس کی فضائیہ اس کی مدد کو آئے گی اور باغیوں پر بمباری کر کے اس کا اقتدار محفوظ کرے گی لیکن اس بار رابطوں کے باوجود روس نے بشارالاسد کی مدد کرنے سے انکار کر دیا اور بشارالاسد جس نے ماضی میں دس سالہ طویل بغاوت کا سامنا کیا وہ ایک ہفتے میں ہی شام چھوڑنے پر مجبور ہو گیا اور اس کی فوج جسے لڑنے کیلئے تیار کیا گیا تھا اس نے اس کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔شام کے حالات میں پاکستان کیلئے اور اس کے سیاست دانوں کیلئے بھی ایک سبق پوشیدہ ہے کہ اگر اپنے چند روزہ اقتدار کیلئے فوج کو ہی طعن و تشنیع بناتے رہو گے اور فوج کو عوام میں بدنام کرنے کی مذموم کوشش کرو گے تو پاکستان کا حال ہی بھی شام جیسا ہو سکتا ہے کیوں کہ ہمارے ہمسائیہ ملک بھارت کی خواہش ہے کہ پاکستان کی فوج کو کمزور کیا جائے اور پاکستان کی فوج کو دہشت گردوں سے نمٹنے میں مصروف کر دیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ فوج کیخلاف پاکستان کی عوام میں ہی پروپیگنڈہ کیا جائے تا کہ پاکستان کی عوام فوج سے متنفر ہو جائے اور جب فوج مختلف محاذوں پر مصروف ہو گی تو پھر اس کا حال بھی شام جیسا کر دیا جائے تا کہ ایک کمزور پاکستا ن کا وجود برقرار رکھا جائے جو بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہ کر سکے اور جو بھارت کہے اس کو چوں چراں کئے بغیر تسلیم کرتا رہے۔لیکن بھارت کے ان ارادوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان کی فوج ہے جو ان تمام سازشوں کے باوجود نہ صرف دشمن کو للکارنے کیلئے تیار ہے بلکہ اس کی جڑیں عوام میں بھی مضبوط ہیں اور فوج کی مضبوطی کی سب سے بڑی وجہ پاکستان کی عوام کا اس کے ساتھ والہانہ پیار اور جذبہ ہے کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ بھارت جیسے مکار دشمن کا مقابلہ کرنے کیلئے فوج کے ہاتھ مضبوط کرنا ضروری ہیں۔اس لئے شام کے حالات سے سبق سیکھتے ہوئے ہمارے حکمرانوں کو چاہئے کہ پاک فوج کو مزید طاقت وربنایا جائے اور پاک فوج کیخلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ کرنے واوں کیخلاف گھیرہ تنگ کیا جائے تا کہ بھارت کی سازشوں کو ناکام بنایا جا سکے۔

مزیدخبریں