پی ٹی آئی کی ہیئت کذائی عجیب سی ہو گئی ہے۔ کچھ کچھ قابل رحم ،کچھ کچھ قابل عبرت۔ اور بعض لوگوں کے خیال میں باعث شرم بھی۔ مجموعی خلاصہ اس تحریف شدہ شعر میں بیان کیا جا سکتا ہے کہ
جو خان بڑی شان سے نکلا تھا ’زمن‘ سے
اڈیالے میں وہ آج غریب الغربا ہے
زمن سے مراد زمان و مکان والا زمانہ نہیں ہے بلکہ زمان پارک ہے۔ زمان پارک کا مخفف ’زیک‘بھی ہو سکتا ہے لیکن زمن زیادہ ’میوزیکل‘ ہے۔ بہرحال صورتحال ’غریب الغربا‘ کی یہ ہے کہ اسے فیصلہ کرنے میں دقت آ رہی ہے۔ کبھی سوچتا ہے سول نافرمانی کر دوں۔ کرا دوں نہیں، یہ بات خیال میں رہے بلکہ یہ کہ کر دوں۔ اس لیے کہ اور تو کوئی کرے گا نہیں، غریب الغربا کو یہ زحمت اکیلے ہی کرنا پڑے گی۔ کبھی سوچتا ہے کہ مذاکرات کر لوں۔ اس میں دقت ہے کہ مذاکرات پارٹی قیادت کے ذریعے ہوں گے اور کل ہی غریب الغربا نے اس پارٹی قیادت کو چارج شیٹ کر دیا ہے۔ ویسے عجیب اتفاق ہے کہ دو روز پہلے ہی غریب الغربا کے ’ماسٹر آف دی سول‘ جنرل فیض کو چارج شیٹ کیا گیا۔ دو روز بعد پارٹی قیادت چاج شیٹ ہو گئی۔ چارج بڑا خوفناک ہے، یہ کہ میں تو اندر مصیبتیں بھگت رہا ہوں، یہ باہر مزے کر رہے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ صرف مزے کر ہی نہیں رہے، اپنے غریب الغربا مرشد پر جو بیت رہی ہے، اس کا سن کر مزے لے بھی رہے ہیں۔
غریب الغربا پر اور مصیبتیں کم تھیں کہ السی کے لڈو سے محرومی کا صدمۂ جانکاہ بھی اٹھانا پڑا۔ حد سے زیادہ معتبر ذرائع نے دو ہفتے پہلے خبر دی تھی کہ غریب الغربا اگست سے السی کے لڈو کھا رہے تھے جن کو ’پنیاں‘ کہا جاتا ہے تاہم یہ روایتی پنیاں نہیں تھیں، ان میں کاجو اور بادام بھی جابجا آویزاں ہوتے تھے۔ حکام نے کسی ناراضگی کی وجہ سے السی کے ان مرصع لڈوؤں کی سپلائی بند کر دی جس کے بعد غریب الغربا کی حالت پتلی ہو گئی اور یوں وہ غریب الغربا سے ترقی پا کر اغرب الغربا ہو گئے۔ تاز پیشرفت کا علم نہیں ہو سکا، یعنی یہ کہ سپلائی بحال ہوئی یا نہیں۔ اس سے کچھ پہلے دیسی بکرے ، دیسی ککڑ کی سہولت واپس لی گئی تھی جو بعدازاں بحال کر دی گئی۔
برسبیل تذکرہ ، بعض احباب کو ککڑ کے لفظ پر اعتراض ہو گا کہ یہ صحیح نہیں ہے۔ صحیح لفظ مرغ یا مرغا ہے۔ تو عرض ہے کہ اصل لفظ ککڑ ہی ہے، مرغ فارسی سے آیا۔ فارسی میں مرغ ہر پرندے کو کہا جاتا ہے یعنی بمعنی طائر۔ کسی انشا پرداز نے باغ کی سیر کا احوال لکھا کہ عجب بہار تھی، ہر طرف گلہائے رنگا رنگ کے تختوں نے جنت نظر کا سماں باندھ رکھا تھا، ہمہ قسم اشجار کی ٹہنیوں پر انواع بے شمار کے مرغان خوش نوا نے طرح طرح کی بولیاں بول کر فردوسِ گوش کا سامان کر رکھا تھا۔ یہی فارس والا مرغ اردو ہندی میں آ کر صرف ککڑ کے لیے مخصوص ہو گیا۔ نہ صرف یہ کہ مخصوص ہو گیا بلکہ مرغ سے مرغا بھی ہو گیا۔
یہ بات البتہ سوچ میں ڈالتی ہے کہ السی کے لڈو سردیوں میں کھائے جاتے ہیں، گرمیوں میں نہیں۔ السی جسم کی سردی کم کر کے حدت اور حرارت غریزی بڑھاتی ہے۔ جولائی اگست کی گرمی میں خاں صاحب کے جسم میں ایسی ’سردی‘ کیوں آ گئی جسے کم کرنے کے لیے انھیں السی کے لڈو کی ضرورت پڑ گئی؟ کیا انقلاب کا شعلہ سرد ہونے سے یہ المیہ رونما ہوا۔ بہرحال، السی کے لڈو ملنا بند ہو گئے تو خاں صاحب متبادل تلاش کرا لیتے۔ مثلاً خمیرہ ابریشم حکیم ارشد والا یا راجہ بازار کے کسی سنیاسی سے کچلہ مدبر کی گولیاں کہ نام حب اذراقی ہے۔ 72 ،75 سال کے نوجوانوں کے لیے خاص کی چیز ہے۔ شیدا بھائی ٹلی والے سے معجون ریگ ماہی بھی منگوائی جا سکتی تھی۔
بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ ذکر اس مخمصے کا ہو رہا تھا کہ جس میں خاں صاحب گھرے ہوئے ہیں، یعنی کیا کروں، کیا نہ کروں؟ یوں کروں تو وہ ہو جانے کا ڈر ہے، وہ کروں تو یہ ہو جانے کا اندیشہ ہے، کہا کابل چلے جاؤں، کہا کابل چلے جاؤ، کہا افغان کا ڈر ہے، کہا افغان تو ہو گا۔ ویسے خاں صاحب کو افغان کا ڈر تو بالکل نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کے یکے از بانیان اور خان کے سابق میڈیا کوآرڈینیٹر جاوید بدر نے کہا ہے کہ 2018ء میں خاں صاحب نے مجھے حکم دیا، افغان گروہ ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی بیان نہیں دے گا کیونکہ اس سے میری ڈیل ہو چکی ہے جس کے تحت طے ہوا ہے کہ افغان صرف ہمیں انتخابی مہم چلانے دیں گے، کسی اور کو چلانے نہیں دیں گے اور پھر ایسا ہی ہوا، خاں صاحب کے سبھی مخالف بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کی زد میں آ گئے اور خاں صاحب الیکشن جیت گئے۔ اور آج تو افغان ہی خاں کی واحد مچان ہیں، اور واحد سائبان بھی۔
ایک ازحد معتبر ذریعے نے تو یہ خبر بھی نشر کر ڈالی ہے کہ خاں صاحب 9 مئی پر معافی مانگنے کو تیار ہو گئے ہیں لیکن شرط لگائی ہے کہ معافی پبلک میں نہیں مانگوں گا، عسکری قیادت کے روبرو مانگوں گا۔ اس شرط کا منظور ہونا مشکل ہے لیکن فرض کیجیے، منظور ہو جاتی ہے تو کیا ہو گا۔ عسکری قیادت اڈیالے حاضر ہوگی تاکہ خاں صاحب اس کے روبرو معافی مانگ سکیں یا خاں کو بڑے ہیڈ کوارٹر لے جایا جائے گا۔ اس میں دقت ایک عدد یہ بھی ہے کہ ہر چند عسکری قیادت رازداری برقرار رکھے گی لیکن معافی مانگنے کی وڈیو لیک بھی تو ہو سکتی ہے۔ آج کل بڑے بڑوں کی وڈیو لیک ہو رہی ہے اور پھر پتا بھی نہیں چلتا کہ لیک کس نے کی، میر جعفر ہر جگہ گھسے ہوئے ہیں، فلم بنانے والے گیجٹس ان کی جیب میں بھی ہوتے ہیں، یہاں تک کہ چھت پر رینگتی چھپکلی بعدازاں پتاچلتا ہے کہ چھپکلی نہیں تھی، کیمو فلاج کیا گیا کیمرہ تھا۔ اسی لیے نیا محاورہ کچھ یوں ہے کہ خاموش، چھپکلیوں کے بھی کان ہوا کرتے ہیں بلکہ آنکھیں بھی۔
مخمصے ہی مخمصے ہیں۔ ادھر پی ٹی آئی کے رنگ ماسٹر جنرل فیض پر جب سے چارج شیٹ لگی ہے، پی ٹی آئی کے کھڑک سنگھ کا پورا قلعہ لرزہ براندام ہو کر کھڑک رہا ہے اور کھڑکے ہی چلا جا رہا ہے۔ فیض اور خان کے بیان کچھ اس طرح کے آئے ہیں کہ یہ ملاقاتیں معمول کے صلاح مشورے کے لیے ہوتی تھیں، کوئی سازش وغیرہ نہیں ہوتی تھی۔
یہ بالکل سچ کہا، بالکل سچا بیان دیا۔ کوئی سازش نہیں ہوئی تھی، البتہ کچھ بندوبستی پخت وپز ضروری ہوئی تھی کہ حافظ کی تقرری کیسے واپس کرانی ہے۔ اس سلسلے میں ایک بڑے جج سے بات بھی ’ڈن‘ ہو گئی تھی۔ ایک رٹ دائر ہونی تھی جس کے نتیجے میں ’مکمل انصاف‘ کرتے ہوئے یہ تقرری خلاف قانون قرار دے کر کالعدم کر دی جاتی اور فیض کے استعفے کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا جاتا کہ دباؤ میں دیا گیا ہے۔ پھر خان فیض کی جوڑی کوس لمن الملکی بجاتی اور دس سال تک بجاتی رہتی لیکن بدقسمتی سے ہوا یوں کہ آخری لمحات میں جج صاحب ڈر کر بدک گئے، ازاں بعد بصد عالم مجبوری 9 مئی برپا کرنا پڑا۔ مزید بدقسمتی سے یہ ایڈونچر ناکام ہو کر گلے کا تسمہ بن گیا اور اب __ 9 مئی کا پھندہ ہے اور ہم ہیں دوستو!