اسلام آباد (ایجنسیاں + مانیٹرنگ سیل) سپریم کورٹ کی جانب سے ججز کی تقرریوں کے حوالے سے صدارتی حکم نامے کو معطل کئے جانے کے بعد ایوان صدر میں صدر آصف علی زرداری کی زیر صدارت اہم اجلاس ہوا ہے جس میں عدالتی احکامات پر خاموشی اختیار کرنے کا فیصلہ کیاگیا ہے۔ اجلاس میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی‘ ڈاکٹر بابر اعوان اور دیگر آئینی ماہرین نے شرکت کی۔ اجلاس میں سپریم کورٹ کی جانب سے صدارتی حکم نامے کو معطل کئے جانے کے بعد کی صورتحال اور اس حوالے سے ممکنہ حکمت عملی پر غور کیا گیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ملک بھر میں صدر زرداری کی جانب سے ایمرجنسی کے نفاذ کی افواہیں گردش کرتی رہیں۔ لوگ بے چینی کی حالت میں میڈیا کے دفاتر میں ٹیلی فون کر کے حقیقت جاننے کیلئے رابطہ کرتے رہے۔ تاہم ترجمان ایوان صدر فرحت اللہ بابر اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات قمر زمان کائرہ نے ایمرجنسی کے حوالے سے خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر زرداری کی جانب سے ایمرجنسی لگائی گئی ہے اور نہ لگائی جا رہی ہے۔ فرحت اﷲ بابر نے کہا ہے کہ صدر نے مشاورت کے بعد نوٹیفکیشن جاری کیا۔ نوائے وقت سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ججوں کی تقرری کا اختیار صدر کے پاس ہے۔ مشاورت کا عمل مکمل ہونے کے بعد صدر تقرری کا اختیار رکھتے ہیں۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع احمد مختار نے کہا کہ عدلیہ کا تین جج بلاکر کوئی فیصلہ دینا ملک اور قوم کیلئے اچھا نہیں۔ سپریم کورٹ کو دونوں فریقین کے دلائل سن کر فیصلہ کرنا چاہئے تھا۔ انہوں نے کہاکہ صدر مشاورت سے فیصلہ کرتے ہیں اور ججوں کی تقرری کا فیصلہ مشاورت کے مطابق ہے۔ پیپلزپارٹی کی ترجمان فوزیہ وہاب نے کہا کہ حکومت آئین اور قانون پر عمل کرے گی اسی کے مطابق فیصلے کئے جائیں گے اس بارے میں ہماری طرف سے کوئی کنفیوژن نہیں ہے۔ صدر نے صورتحال کے حوالے سے انتہائی اقدام اٹھانے کا فیصلہ کیا نہ ایسا ممکن ہے کیونکہ محترمہ بے نظیر نے 3 نومبر 2007ءکو جب اس وقت کے آمر نے ایمرجنسی لگائی تھی تو اس کی مذمت کرتے ہوئے اسے منی مارشل لاءقرار دیا تھا ہم آئین اور قانون کی پیروی کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ ججز کی تقرریوں کے بارے میں سپریم کورٹ کی جانب سے صدارتی حکم نامہ کی معطلی کے بعد غیریقینی صورت حال پیدا ہو گئی ہے‘ ایسا پہلے کبھی پاکستان کی تاریخ میں ہوا ہے نہ ہی دنیا میں کہیں‘ میڈیا معاملے کو کوئی اور رنگ دے نہ ہی اسے اچھالے‘ ججز کی تقرریوں کے معاملے پر بیٹھ کر منطقی حل نکالنا پڑے گا۔ گورنر سلمان تاثیر نے نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایمرجنسی نافذ نہیں کی جا رہی‘ کچھ چینلز کی خواہش ہے کہ ملک کو ایمرجنسی اور بحران کی طرف دھکیلا جائے۔ این این آئی کے مطابق صدر کے احکامات کو معطل کئے جانے کے بعد پیپلزپارٹی کے کئی سینئر رہنماﺅں‘ عہدیداران اور اراکین پارلیمنٹ کے فون بند ہو گئے‘ ججز بحالی تحریک کے حامی خوشی کا اظہار کرتے رہے جبکہ حکومتی حمایتی پریشان ہو گئے۔ بی بی سی ڈاٹ کام کے مطابق وزیر اطلاعات قمر الزمان کائرہ نے کہا کہ ججوں کی تقرری کے بارے میں حکومت کے پاس چیف جسٹس کی تحریری مشاورت موجود ہے اور صدر نے جو بھی حکم جاری کیا ہے وہ آئین اور قانون کے مطابق ہے۔ بی بی سی کے ساتھ فون پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کے ساتھ خط و کتابت میں جو مشاورت ہوئی ہے وہ ریکارڈ پر موجود ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے چیف جسٹس نے اپنی سفارشات صدر کو بھیجیں اور صدر نے انہیں اپنی آراءکے ساتھ واپس بھیجیں اور اس کے بعد چیف جسٹس نے جو دوبارہ اپنی رائے دی اس کو صدر مملکت نے آئین کے تحت اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے فیصلہ دیا اور وزارت قانون نے نوٹیفکیشن جاری کیا۔ عدالت کے اس حکم کے بارے میں جب وزیر اطلاعات سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ حکومت عدالتی فیصلے کو تسلیم کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت آئندہ جو بھی قدم اٹھائے گی وہ آئین اور قانون کے مطابق ہو گا۔ اداروں سے ٹکراوکی صورتحال کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ اداروں میں ٹکراو نہیں ہو گا‘ خدا نہ کرے ایسا ہو‘ میں سمجھتا ہوں کہ اداروں میں اس بات کا ادراک موجود ہے اور ٹکراونہیں ہو گا۔ وزیر اطلاعات نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ سپریم کورٹ رات کو فیصلہ کرے یا دن کو وہ عدالت کا فیصلہ ہی ہوتا ہے۔ دریں اثناءسابق اٹارنی جنرل لطیف کھوسہ نے ایک نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ شام گئے جس طرح سپریم کورٹ نے فیصلہ جاری کیا ہے اس کو تمام ”جیورسٹ“ دیکھ رہے ہیں کہ ایسے فیصلے ہو رہے ہیں اور دوسرے فریق (حکومت) کو سنے بغیر فیصلہ دیا گیا ہے۔