”پیپکو ٹرانسفارمرز سکینڈل“ کئی اعلیٰ سیاسی شخصیات کے ملوث ہونے کا بھی انکشاف

لاہور (نمائندہ خصوصی) پیپکو میں ٹرانسفارمرز کی خرید کی مد میں ہونیوالی اربوں روپے کی کرپشن میں کئی اعلیٰ سیاسی شخصیات کے ملوث ہونے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ نیب کی تحقیقات کا دائرہ وسیع ہوتے ہی کئی قوتیں اس کیس کو داخل دفتر کروانے کیلئے متحرک ہو گئیں۔ باوثوق ذرائع کے مطابق پیپکو نے بین الاقوامی کمپنیوں کے تیارکردہ کم قیمت کے معیاری ٹرانسفارمرز کو نظرانداز کرتے ہوئے مقامی کمپنیوں کے تیارکردہ ”لولاس“ نامی مہنگے ٹرانسفارمرز کی خرید کا ٹینڈر منظور کر لیا تھا اور ان کمپنیوں کو تقریباً ساڑھے تین سے چار ارب روپے مالیت کے 7 ہزار ٹرانسفارمر کی خرید کیلئے باقاعدہ پرچیز آرڈر بھی جاری کر دئیے۔ اس خوردبرد کا انکشاف ہوتے ہی نیب نے انکوائری شروع کر دی اور ٹیکنیکل ایڈوائزر کیلئے یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کو ”لولاس“ ٹرانسفارمرز کی تمام تفصیلات فراہم کرتے ہوئے تفصیلی رپورٹ تیار کرنے کی درخواست دیدی جس پر انجینئرنگ یونیورسٹی کے ماہرین کی ٹیم نے تحقیق کے بعد نیب کو بھجوائی گئی اپنی رپورٹ میں پیپکو کے اس نئے ڈیزائن کو ناقابل عمل قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا اور تجویز دی کہ اگر اس جعلی ڈیزائن پر عمل کیا گیا تو یہ پیپکو کی تباہی کا باعث بنے گا اور پیپکو کو سالانہ اربوں روپے نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ ٹیکنیکل کمیٹی نے اس ٹرانسفارمر کی خرید کو پاکستانی عوام اور پیپکو کیلئے مالی تباہی قرار دیا ہے۔ ٹیکنیکل کمیٹی نے یہ تفصیلی رپورٹ نیب پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل جسٹس (ر) رانا زاہد حسین، ایڈیشنل ڈائریکٹر ممتاز باجوہ، ڈائریکٹر شمشیر علی اور تفتیشی افسر نعمان مشتاق کو بھجوا دی ہے۔ نیب ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اس ڈیزائن کو منظور کرنے والے پیپکو کے افسر نے 10 کروڑ روپے رشوت وصول کی اور سکینڈل میں انتہائی اعلیٰ سطح کی کچھ سیاسی شخصیات اور ان کے عزیزواقارب بھی ملوث ہیں۔ اگر پیپکو معاہدے کے مطابق ساڑھے 5 لاکھ ٹرانسفارمر خریدے تو قوم کا 200 ارب روپے سے زائد رقم خوردبرد ہو سکتی ہے۔ بعض شخصیات نے انکوائری کو رکوانے کیلئے اپنا اثرورسوخ استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن