مروت قبیلے کے سپوت انورکمال خان مروت 19نومبر1947 کو بنوں میں حبیب اللہ خان کے گھر پیدا ہوئے ان کے والد حبیب اللہ خان سینیٹ آف پاکستان کے پہلے چیئرمین اور قائمقام صدرپاکستان رہ چکے ہیں ۔1964میں سینٹ میری اکیڈمی راولپنڈی سے میٹرک کرنے کے بعد انورکمال مروت نے گومل ڈگری کالج ڈی آئی خان سے گریجویشن کی اور پشاورلاءکالج سے قانون کی ڈگری ایل ایل بی حاصل کی زمانہ طالب علمی کے دوران 1967میں گومل ڈگری کالج میں پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر بھی رہے ضلع لکی مروت کے نامور سیاسی گھرانے کے چشم و چراغ کے طورپر سیاسی زندگی کے آغاز کے ساتھ ہی 1980میں وہ بلا مقابل میونسل کمیٹی لکی مروت کے چیئرمین منتخب ہو گئے اور جنرل ضیاءالحق کی مارشل لاءکے دور 1981میں مجلس شوریٰ کے صوبائی کونسل مقررکئے گئے اور اس عہدے پر 1985تک فائز رہے 1988 کے الیکشن میں ایم پی اے منتخب ہوئے اورصوبائی وزیر منصوبہ بندی و ترقی مقرر کئے گئے 1990کے عام انتخابات میں مشال خان نے الیکشن میں انورکمال مروت کو شکست دی تاہم 1993 میں وہ اپنے سیاسی حریف مشال خان سے اتحادکر کے ایک بارپھرمسلم لیگ(ن)کے ٹکٹ پر رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے اور کچھ ماہ کےلئے وزیراعلیٰ پیر صابر شاہ کی حکومت میں وزیر منصوبہ بندی و ترقیات رہے تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں پیر صابر شاہ حکومت کے خاتمے کے بعد 1994 میں وہ سرحد اسمبلی میں ڈپٹی اپوزیشن لیڈر بنے 1997میں مسلم لیگ(ن)کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہوئے 2002کے عام انتخابات میں وہ ایک بار پھر مسلم لیگ(ن)کے ٹکٹ پر ایم پی اے منتخب ہوئے اور سرحد اسمبلی میں مسلم لیگ(ن)کے پارلیمانی لیڈر بنے ڈکٹیٹرپرویز مشرف کی آمریت کے خلاف پانچ سال اسمبلی کے اندر اور باہر للکارتے رہے اصولوں پر سودے بازی نہیںکی اور یہ وہ مشکل ترین وقت تھا کہ جب محمد نواز شریف کے قریبی ساتھی بھی ان کا ساتھ چھوڑ کر ڈکٹیٹرپرویزمشرف کی گود میں بیٹھ گئے لیکن مروت قبیلے کے سپوت انورکمال خان مروت نے ہر قسم کے دباﺅ ،لالچ و مراعات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اپنے قائد محمدنواز شریف کا ساتھ دیا اور صوبے میں مسلم لیگ(ن)کو زندہ رکھا اور موت کی آغوش تک مسلم لیگ(ن)کے ساتھ وفاداری نبھائی۔2008ءکے الیکشن میں وہ اپنے دیرینہ رفیق کار سابقہ ایم این اے حاجی محمد کبیر خان کے بھائی منورخان مروت سے صرف چند سو ووٹوں سے ہار گئے ۔
فروری 2011 میں انورکمال خان مروت کو مسلم لیگ(ن)کو قبائلی علاقوں میں فعال اور منظم جماعت بنانے کےلئے کوارڈی نیٹر مقرر کیاگیا فاٹا کے فرسودہ نظام ایف سی آر کے خاتمے اور اصلاحات کےلئے جدوجہد کی اور 64سال بعد قبائلی عوام کو سیاسی آزادی ملنے میں مرحوم نے اہم کردار ادا کیا تھا فاٹا میں پیسوں کی چمک کی سیاست کاخاتمہ ان کا خواب تھا وہ فاٹا کے عوام کو بنیادی انسانی حقوق دینے کے حق میں تھے لیکن اچانک موت نے پورے صوبے کی طرح قبائلی عوام کو بھی غمزدہ کردیا اور وہ ایک اچھے ،باکردار،مخلص اور اصول پسند لیڈرسے محروم ہو گئے مرحوم کا خلاءکبھی پر نہیںہوگا ایسی شخصیات صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں۔ صداقت ،شرافت،ملنساری ،قناعت،طبیعت میں سادگی آپ کی زندگی کے قیمتی اثاثے تھے کیونکہ مرحوم کاخاندان ضلع لکی مروت کے بڑے خوانین میں سے تھا لیکن گھر کے دروازے ہر حاجت مند،مظلوم اور پارٹی ورکروں کےلئے کھلے تھے جو بات کرتے اسے پورا کرتے راقم کا مرحوم کے ساتھ تعلق گزشتہ سولہ سالوں سے تھا ان میں جواوصاف تھے وہ بہت کم لیڈروں میں پائے جاتے ہیں وعدے کے پکے تھے صحیح بات ہرکسی کے منہ پر کہتے تھے اسی وجہ سے ہر آدمی ان کا گرویدہ بن گیا ۔مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوتے اور ظالم کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن جاتے ۔ انور کمال خان مروت پاکستان مسلم لیگ(ن)کے صوبائی سینئر نائب صدراور مسلم لیگ(ن)کے جنرل سیکرٹری کے عہدوں پر بھی فائز رہے ۔ انہوں نے شدت پسندوں کی کارروائی روکنے کےلئے اپنی قوم کو متحد کیا ان کی موجودگی میں نہ صرف مروت قوم بلکہ ضلع لکی مروت کی سرزمین پر بسنے والے دیگر اقوام کے افراد کو ایک طرح تحفظ کا احساس دلاتی تھی ۔گیارہ فروری 2012کو پی سی ہوٹل پشاورمیں ایک سیمینار میں شریک تھے کہ دل کا دورہ پڑا انہیں قریبی ہسپتال لیڈی ریڈنگ منتقل کیاگیا جہاں ان کی حالت خطرے سے باہر تھی اور 13فروری 2012پیر کی صبح ڈاکٹروں نے انجیوگرافی کی اسی دوران پھر دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوگیا اور وہ خالق حقیقی سے جا ملے ۔
مرنے والے مرتے ہیں لیکن فناہوتے نہیں
وہ حقیقت میں ہم سے جدا ہوتے نہیں