سپریم کورٹ میں ”شیخ الاسلام“ کے قرآنی آیات کے حوالے۔
ایک مولوی کے پاس بڑا زمیندار آیا اور کہا حضرت اگر کوئی بندہ غلطی کر لے تو اس کی سزا کیا ہے۔ مولوی صاحب نے لاحول ولا قوة پڑھا اور کہا اس کا کفارہ تو بہت سخت ہے آپ ایسا کریں کہ کسان جو ہل کھیتوں میں بیلوں کے ساتھ چلاتے ہیں اسے سیدھا کھڑا کریں اور اس کے دونوں اطراف روٹیاں رکھ کر زمین سے لیکر ہل کے آخری حصے تک جب دائیں بائیں روٹیاں ہو جائیں تو وہ ساری روٹیاں صدقہ کر دینا۔
زمیندار نے مزید کہا کہ حضور والا میرے بیٹے کے ساتھ آپ کا بیٹا بھی تھا تو مولوی صاحب نے داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا پھر اس کا ایک اور طریقہ بھی ہے آپ ”ہل“ کھڑی کرنے کی بجائے نیچے لِٹا دیں اور اس پر ایک ایک روٹی رکھ دیں تو کفارہ ادا ہو جائے گا، ایسے ان مولویوں کا یہی حال ہے .... ع
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ایسے ہی نام نہاد ”شیخ الاسلام“ کو پہلے رسول اللہ خواب میں نظر آئے تھے۔ نعوذ باللہ آپ نے ”شیخ الاسلام“ سے کرایہ بھی مانگا تھا۔ مولویوں نے تب چار دن شور شرابہ کیا پھر خاموش ہو گئے۔ مولٰینا طاہر القادری کو اس مرتبہ خواب میں کوئی بشارت نہیں ملی تھی کہ آپ سپریم کورٹ جائیں آپ کامیاب ہوں گے؟ گزشتہ روز سپریم کورٹ کے باہر ”علامہ“ کے طوطے اُڑے نظر آ رہے تھے۔ ہم علامہ کو پٹیش خارج ہونے پر یہی کہں گے ....
جان بچی سو لاکھوں پائے
لوٹ کے بدھو گھر کو آئے
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
”پڑوسی“ کی ”مشکلات“ کی وجہ سے اپنی فوج مضبوط کرنا ہو گی : منموہن سنگھ
معلوم ہوتا ہے کہ منموہن سنگھ ”امن کی آشا“ کی حوصلہ افزائی کنپٹی پر بندوق رکھ کر کرنا چاہتے ہیں۔آپ پڑوسی کے جتنے خیر خواہ ہیں وہ تو گنگا میں ڈبکی لگانے والے منیڈکوں کو بھی پتہ ہے۔ جب پڑوسی اپنی فوج مضبوط کرتا ہے تو سنگھ ”آپی سونیا“ کے ساتھ واشنگٹن کے طواف کیلئے بھاگ دوڑتا ہے۔ منموہن سنگھ کا بیان تو بھیڑیے کو بکریوں کی رکھوالی پر بٹھانے کے مترادف ہے۔
یہ حقیقت میں دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ہمسایوں کو ہڑپ کرنے کی بھی چال ہے۔ لیکن منموہن کو یاد رکھنا چاہئے کہ دوسروں کیلئے کھڈا کھودنے والا خود ہی اس میں گرتا ہے۔ آپ لاکھ فوج کو مضبوط کر لیں لیکن جب آپ کا جدید اسلحہ انتہا پسندوں کے ہاتھ لگے گا تو پھر بندر کے ہاتھ میں ماچس کی تیلی آ جائے گی اور ایسی آگ بھڑکے گی کہ سردار جی کے پگڑے کے نیچے سے بھی دھواں نکلنا شروع ہو جائے گا، جون جولائی کی گرمائش تو اس کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ کہنے کو تو بہت کچھ ہے لیکن سیانے کہتے ہیں .... ع
کانے نوں منہ تے کانا نئیں آکھیدا
اگر آپ کہیں گے تو پھر وہ چشمہ لگا لے گا اور آپ کی چھیڑ خوانی بھی ختم ہو جائے گی۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
منڈی بہاﺅالدین : ریلوے ٹریک کے ٹوٹے حصے کو کپڑے سے باندھ دیا گیا۔
سرگودہا لالہ موسیٰ ریلوے ٹریک کے ٹوٹے حصے کو جوڑنے کیلئے لکڑی کا تختہ رکھ کر کپڑے کی پٹی باندھ دی گئی ہے۔ یہ کوئی شوکت بسرا کا سر تھوڑا ہی تھا جو مصنوعی پٹی کر کے صدر محترم کو دکھانا مقصود ہے، ریلوے والوں نے بھی جعلی مرہم پٹی کر کے خانہ پُری کر دی شاید غلام بلور نے ٹریک کی تیمار داری کرنے آنا تھا۔ اگر لوہے کو کپڑے کی پٹی سے جوڑا جا سکتا ہے تو پھر ٹوٹے دلوں کو بھی تو میجک یا ایلفی سے جوڑنے کی روایت شروع کرنی چاہئے۔ آج تو ویسے بھی 14 فروری ہے دلوں کو جوڑنے کیلئے سرخ پھول پیش کئے جائیں۔
منچلے سرخ کپڑے پہن کر محبت کا اظہار کریں لیکن ٹوٹے ہوئے دل آنسوﺅں کی مالہ سجائے اپنی نااہلی کا رونا روئیں گے، کوئی تو چھت کے کنارے بیٹھ کر فضا میں ہی باتیں کر کے پیغامِ محبت پہنچانے کی ناکام کوشش کریں گے، آخر دیوانے جو ہوئے، لیکن ہم داد دیں گے منڈی بہاﺅالدین کے ریلوے حکام کو جنہوں نے ریلوے کی تباہی اور انسانی جانوں کے ضیاع کا آسان ترین حل نکال لیا ہے۔
ایسی پٹیاں تو چرسی بھی اپنے زخموں پر نہیں کرتے جیسے ریلوے کے ڈاکٹروں نے ٹریک کو پٹیاں کر دیں۔ پانچ سال میں بلوری نے تو ویسے ہی ریلوے کا بیڑہ غرق کر دیا ہے اب رہی سہی کسر عملے نے نکالنا شروع کر دی ہے۔ بھلا ہو اہل علاقہ کا جنہوں نے شور کر کے نوکری چوروں کا پردہ چاک کیا ورنہ تو یہ لاپرواہی کسی بڑے حادثے کی بنیاد بن سکتی تھی۔ سچ کہا گیا ہے ....
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
پانچ سالوں میں پہلے ریلوے ڈبے بند کئے اب لوہا بیچا جا رہا ہے۔