جسے چاہا در پہ بلا لیا،جسے چاہا اپنا بنا لیا،یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے،یہ بڑے نصیب کی بات ہے۔چھ ماہ پہلے عمرہ کی سعادت نصیب ہوئی تووالدہ کے لئے کھجوروں کا تحفہ لے گئی ۔والدہ علیل تھیں ،کھجوروں کا پیکٹ اپنی الماری میں سنبھال کر رکھ دیا کہ تندرست ہو کر کھاﺅں گی۔مگر اللہ نے انہیں مہلت نہ دی اور اپنے جوا رحمت میں بلا لیا۔والدہ کی الماری کھولی تو کھجوروں کا پیکٹ جوں کا توں رکھا تھا۔چیزیں رہ جاتی ہیں اور لوگ چلے جاتے ہیں۔چیزوں کی عمر اتنی دراز کیوں ہوتی ہے؟والدہ کی جدائی کا قلق اس قدر شدید ہے کہ ایک شب خواب میں آئیں اور میری پیشانی پر بوسہ دیا اور میرا بازو تھام کر مجھے مسجد نبوی لے گئیں۔چند روز بعد اچانک عمرہ کا بلاوا آگیا اور میں سوئے مدینہ چل دی ۔ دل تو چاہاکہ ننگے پاﺅں در حبیب ﷺ چل دوں۔اللہ کے حبیب ﷺ کی شان بیان کرتے ہوئے دمشق کے ایک سکالر ڈاکٹر شوقی ابو خلیل اپنی ایک تصنیف میں لکھتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ اخلاق و فضائل میں مکمل شخصیت،آپ کا خلق قرآن کی سچی تصویر اور راضی برضاءکی تفسیر تھے۔جہاں اللہ ناراض ہوتا تھا وہاں آپ ﷺ بھی ناراض ہو جایا کرتے تھے۔حضرت موسیٰ علیہ اسلام کلیم اللہ تھے۔ انبیاءپر ایک خاص مقام رکھتے ہیں مگر آقا نامدار محمد مصطفیٰ ﷺ کا مقام و مرتبہ سب پر بلند فرما دیا۔ حضرت موسیٰ ؑکے بارے میں قرآن فرماتا ہے کہ انہوں نے کہا”رب کریم !میں تیرے پاس جلدی جلدی آیا تا کہ تو مجھ سے راضی ہو جائے(طہٰ) جب کہ قرآن مجید میں نبی کریم ﷺ کی شان کریمی یوں بیان کی گئی ہے کہ ”تیرا ربّ تجھے اتنا دے گا کہ تو راضی ہو جائے(الضحیٰ)حضرت موسیٰ ؑ کے بارے میں فرمایا”موسی نے کہا©اے میرے پروردگار! میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا، لہذا مجھے معاف فرما دے ۔اللہ تعالیٰ نے اسے معاف فرما دیا۔بلا شبہ وہ غفورو رحیم ہے“۔(القصص) جب کہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے بارے میں فرمایا ”ہم نے آپ کو واضح فتح عطا فرمائی تا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرمائے ،اپنی نعمت آپ پر مکمل فرمائے اور آپ کو صراط مستقیم پر قائم رکھے“۔ ( الفتح)حضر ت موسیٰؑ کے بارے میں مذکور ہے”موسی نے کہا©:اے میرے ربّ! میرے لئے میرا سینہ کھول دے“۔(طہٰ) جب کہ نبی کریم ﷺ کے بارے میں قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے”کیا ہم نے آپ کا سینہ کھول نہیں دیا ؟“(الانشراح) حضرت موسیٰ ؑ نے کہا”اے اللہ ! میرے لئے میرا کام آسان فرما دے“(طہٰ)جب کہ نبی اکرم ﷺ کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے ”اور ہم آپ کے لئے آسانی مہیا کریں گے“۔(الاعلیٰ)حضرت موسیٰ ؑ نے اللہ سے زمین پر کلام کیا جب کہ اپنے حبیب ﷺ سے زمین پر بھی کلام کیا اور انہیں عرش پر بلا کر رو برو بھی کلام کیا۔حجابات اٹھا دئے،محب اور حبیب ﷺ کا معاملہ تھا۔تمام انبیاءکرام کو خاص اقوام ،علاقوں کی طرف مبعوث فرمایا جب کہ نبی کریم ﷺ سے فرمایا”اور ہم نے آپ کو سب جہان والوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے“(الانبیائ)”بلا شبہ تمہارے پاس تمہاری نسل میں سے ایک عظیم رسول تشریف لا چکے جن پر تمہاری تکلیف و مشقت بہت شاق گزرتی ہے اور تمہارے مفاد کے وہ بہت خواہشمند ہیں۔ وہ ایمان والوں کے لئے رﺅف و رحیم ہے“۔(توبہ) گویا اللہ تعالیٰ نے اپنے اسمائے حسنیٰ میں سے یہ دو نام آپ ﷺ کو عطا فرما دئے۔کسی شخص کی زندگی میں اس کی زندگی کی قسم اٹھانا اس کی زندگی کے عظیم الشان ہونے کا ثبوت ہے۔ظاہر ہے وہ زندگی قسم اٹھانے والے کے نزدیک بہت پیاری و بلند و بالا ہو گی۔اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کی قسم اٹھاتے ہوئے کہا” تیری حیات طیبہ کی قسم !یہ لوگ اپنی مدہوشی میں اندھے ہو رہے ہیں“(الحجرات) قرآن مجید میں نبی اقدس ﷺ کو انتہائی احترام اور پیار سے خطاب فرمایا گیا مثلََا یا نبی،یا رسول،یا مزمل،یا مدثر جب کہ باقی انبیاءکو ان کے ناموں سے پکارا گیا مثلاً یا آدم، یا نوح، یا موسیٰ، یا داﺅد، یا زکریا، یا یحییٰ، یا عیسیٰ وغیرہ۔ قرآن پاک ایک مکمل نعت ہے۔اللہ تعالیٰ کا انداز بے تکلفی اور محبت کا یہ عالم کہ اپنے حبیب سے فرماتا ہے”اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہے کہ آپ اپنے ساتھیوں کے لئے بہت نرم ہیں۔اگر آپ درشت مزاج ،سخت دل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے بھاگ جاتے لہذا ان سے در گزر کیا کریں بلکہ اللہ تعالیٰ سے بھی ان کے لئے استغفار کیا کریں اور باہمی معاملات میں ان سے مشورہ کیا کریں ۔البتہ جب فیصلہ کر لیں تو پھر اللہ کے بھروسہ پر ڈٹ جائیں،بلا شبہ اللہ توکل کرنے والوں کوپسند فرماتا ہے“(آل عمران)محمد رسول ﷺایسی بے مثال ہستی کی عبادت کا مرکز بھی صرف اللہ سبحان تعالیٰ کی ذات اقدس تھی اور امت کو بھی یہی دین سکھایا کہ عبادت اور سجدے کے لائق صرف اللہ کی ذات اقدس ہے ۔اس پاک پروردگار کے گھر کی زیارت کا جس گھڑی بلاوا آتا ہے پیر زمین پر چلنا بھول جاتے ہیں اور نگاہوں کو بیت اللہ اور گنبد خضرا کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔جس طرح بیت اللہ شریف تک پہنچنے کے لئے ویزے اور پاسپورٹ کی ضرورت ہے ،اسی طرح اللہ کی رضا تک پہنچنے کے لئے محمد رسول ﷺ کی محبت اور اطاعت ضروری ہے۔حضور ﷺ سے محبت شخصیت پرستی نہیں بلکہ ایمان کا بنیادی جزو ہے۔حضور ﷺ کی محبت کے بغیر کلمہ طیبہ نا مکمل ہے۔دین اسلام عقل اور جذبات کا امتزاج ہے۔کلمہ کودل اور دماغ سے قبول کرنے کا نام دین محمدی ﷺ ہے۔جب بھی بیت اللہ شریف کی حاضری نصیب ہو ئی ،اللہ سے اس کے دین کی رہنمائی اور اس کے حبیب ﷺ کی محبت مانگی۔اس کا وعدہ ہے کہ وہ مانگنے والے کو عطا کرتا ہے تو کیوں نہ دونوں جہانوں کی رحمت مانگ لی جائے یعنی رحمت العالمین کو ہی مانگ لیا جائے۔