کچھ موروثی مزاحیہ فن کاروں پر!

پاکستان میں موروثی سیاست کے نوخیز ستارے جنابِ بلاول بھٹو زرداری کا فرمانا ہے کہ اب کے پنجاب میں بھی اُنہی کی حکومت بنے گی! اور اہلِ خبر تک یہ اطلاع بھی پہنچائی کہ پی پی پی اور قاف لیگ کے انتخابی اتحا د کے حوالے سے کوئی نئی فہرست نہیں بنائی جا رہی! حتیٰ کہ کسی پرانی لسٹ پر بھی غور و خوض میں وقت ضائع نہیں کیا جارہا! پاکستان میں موروثی سیاست کے چیمپئن جنابِ مخدوم سید احمد محمود نے بھی فرمایا ہے کہ بہاول پور آج نہیں،تو، کل صوبہ بن جائے گا! کیونکہ یہ کوئی سیاسی نہیں بلکہ ایک انتظامی مسئلہ ہے ! اور پھر سوال اُٹھایا کہ بہاول پور کی سیاسی اِکائی کے لیے لسانی صوبے کے الفاظ استعمال کرنے والے اُنہیں بتائیں کہ کیا پنجاب، سندھ اور بلوچستان کا نام لسانی نہیں؟ جہاں تک ہمیں یاد پڑتا ہے پنجاب پانچ دریاﺅں کے حوالے سے پنجاب کہلایا! سندھ دریائے سندھ کے حوالے سے ایک بہت بڑی ثقافت پر مبنی ریاست رہ چکی ہے! جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے ،تو، اس صوبے میں بلوچ نسل کی آبادی اقلیت میں ہے! کیونکہ اس کے بیشتر بیٹے پنجاب اور سندھ میں بس گئے! اور وہیں کے ہو رہے! پاکستان کے تمام انتظامی یونٹ موروثی سیاست کے چیمپئنوں سے بھرے پڑے ہیں! یہ سلسلہ¿ وراثت 1970کے انتخابات کے دوران کہیں گم ہو گیا تھا! اب پاکستان پیپلز پارٹی کے زعما یہ سلسلہ¿ وراثت نئے سرے سے پاکستان کی تمام انتظامی اِکائیوں میں کاشت کر رہے ہیں!آیا اِتنا پرانا بیج پھل لاسکے گا،یا، نہیں ؟یہ سوال ان موروثی زرعی سائنس دانوں کے ذہن میں موجو د ہی نہیں! مہاراجہ پرویز اشرف اپنے بہترین اتحادی جنابِ الطاف سے ملنے کی نیت باندھ کر گھر سے نکلے،تو، متحدہ کے ترجمان جنابِ سلیم شہزاد نے پیغام بھجوا دیا کہ اگر پہلے اطلاع دی جاتی،تو، اس ملاقات کا اہتمام کیا جاسکتا تھا،تو، مہاراجہ پرویز اشرف کی طرف سے یہ وضاحت جاری کر دی گئی کہ ملاقات کے لیے پیغام بھجوایا گیاتھا! جنابِ الطاف حسین اور ہمارے مہاراجہ پرویز اشرف سیاسی میراث بنانے والو ں میں شمار ہوتے ہیں! اور کئی موروثی سیاست دانوں سے زیادہ ’جمع جتھا‘ رکھتے ہیں! اور اسی ’جمع پونجی‘ کے سہارے ’بڑے بڑے بول‘ ،بول جاتے ہیں!اب یہ خبر بھی ایسے ہی ’بڑے بڑے بولو ں‘ اور اتنی ’بڑی بڑی جمع پونجیوں‘ کا اشاریہ ہے! لاہور میٹرو بس کا عظیم الشان منصوبہ اپنی جگہ مگرموروثی سیاست کاروں کی جگت بازیوں کا سلسلہ اپنی جگہ! شاید ہم اُن معاشروں میں اپنا نام لکھوانے گھر سے نکل پڑے ہیں! جن معاشروں کے افراد دیکھے جاتے ہی تمسخر کا ہدف قرار پا جاتے ہیں! اور اُنہیں ہنسانے کے لیے کسی لسانی بازی گری،یا جسمانی تمسخر کاری کی ضرورت ہی نہیں پڑتی! حیران کن امر یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی کامیابی کا مذاق اُڑا رہے ہیں! بعض اوقات لگتا ہے کہ اِن لوگوں کا ہمارے معاشرے سے کوئی تعلق ہے ہی نہیں! اگر آپ ان مسخروں پر نگاہ ڈالیں،تو، یہ سب کے سب کسی نہ کسی موروثی سیاسی خاندان کے افراد نکلیں گے!اور ان سب کے رابطے جنابِ طاہرالقادری سے ملتے نظر آئیں گے کہ وہ بھی اِن دِنوں اپنے یہودی دوستوں کے کہنے پر ایک بڑا مزاحیہ کھیل پیش کر رہے ہیں!

ای پیپر دی نیشن