اسلام آباد (قسور کلاسرا + دی نیشن رپورٹ) پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کے ماہرین نے کامران فیصل کی موت کے حوالے سے کیس میں کرائم سین سے ایک اور ڈین اے پائے جانے کا انکشاف کیا ہے۔ اس انکشاف نے ملک بھر میں کئی قسم کے سوالات کو جنم دیا ہے۔ خصوصی طور پر اقتدار کے ایوانوں کے حوالے سے کئی سوالات پیدا ہوئے ہیں۔ یہ پایا جانے والا ڈی این اے کس کا ہے یہ لاکھوں ڈالر کا ایک ایسا سوال ہے جو تفتیش کاروں کو یہ جاننے میں مدد دے گا کہ کامران فیصل کے ساتھ کیا بیتی۔ یہ تمام انکشاف اس فرانزک رپورٹ میں ہیں جو اسلام آباد پولیس کو فراہم کی گئی ہے۔ اگرچہ پولیس حکام نے اس کی تفصیلات بتانے سے انکار کر دیا ہے تاہم بعض سرکاری ذرائع نے بتایا کہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کامران کی موت سے قبل اس پر تشدد کیا گیا تھا۔ ان ذرائع کے مطابق اس سے قبل پوسٹمارٹم اور کیمیکل ایگزامینر رپورٹ کو مسترد کر دیا گیا ہے کہ تشدد کے نشانات نہیں پائے گئے۔ رپورٹ کے مطابق بیالوجسٹس کو کامران کے جسم سے کسی نشہ آور دوا کی موجودگی کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ رپورٹ میں اس بات کو مسترد کر دیا گیا کہ انہیں نشہ آور دوا کھلائی گئی۔ پولیس حکام کی آف دی ریکارڈ گفتگو کے مطابق وہ اس رپورٹ کو قبول کرنے کے موڈ میں نہیں اس کی بجائے وہ برطانیہ کی فرانزک لیبارٹری کی رپورٹ کے منتظر ہیں۔
کامران کیس