وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ہم بھارت کے ساتھ لائن آف کنٹرول پر کوئی میکنزم بنانا چاہتے ہیں۔ بھارت سے اہم ایشوز پر پیش رفت ہوئی ہے اور ڈی جی ایم اوز کی میٹنگ میں طے پایا ہے کہ دونوں طرف سے گولہ باری نہیں ہوگی۔ گزشتہ روز انقرہ میں ترکی کے صدر اور وزیراعظم اور افغان صدر سے ملاقات کے موقع پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے میاں نوازشریف نے کہا کہ ہم نے اقوام متحدہ سے مسئلہ کشمیر حل کرنے کی درخواست کی تھی مگر بھارت مسئلہ کشمیر پر بات چیت کیلئے تیار نہیں۔ پاکستان مسئلہ کشمیر کا حل چاہتا ہے‘ اس لئے بھارت کو اس مسئلہ پر بات چیت کیلئے راضی ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہم گزشتہ 65 سال سے مل رہے ہیں‘ مگر مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو رہا۔ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے امریکی صدر اوبامہ سے بھی بات ہوئی تھی۔ بھارت کو خود ہی کشمیر پر مذاکرات کیلئے رضامند ہو جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کیخلاف استعمال نہ ہونے دینا حکومت کی پالیسی ہے‘ ہم سب سے پہلے خود کو ٹھیک کرینگے۔ ملک میں دہشت گردی کا خاتمہ اور امن کا قیام ہماری اولین ترجیح ہے۔
یقیناً کشمیر ہی وہ دیرینہ مسئلہ ہے جس کے باعث اس خطہ کے عوام کو آج تک امن و آسودگی نصیب نہیں ہو سکی اور جو وسائل اقتصادی ترقی اور عوام کی خوشحالی کیلئے بروئے کار لانے چاہئیں‘ وہ پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کیخلاف اپنی دفاعی تیاریوں میں استعمال کر رہے ہیں جس سے خطے میں خوف و ہراس کی فضا بھی مستقل طور پر قائم ہے اور اب دونوں ممالک کے ایٹمی قوت ہونے کے ناطے صرف اس خطہ ہی نہیں‘ عالمی امن و سلامتی کو بھی خطرہ لاحق ہو چکا ہے اس لئے اقوام عالم کو خود اس تشویشناک صورتحال کا احساس کرنا چاہیے اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کرانے میں اپنا کردار بروئے کار لانا چاہیے۔ یقیناً دنیا کو اس حقیقت کا بھی علم ہے کہ مسئلہ کشمیر خود بھارتی لیڈران کا پیدا کردہ ہے‘ جنہوں نے قیام پاکستان کے وقت تقسیم ہند کے فارمولے کے مطابق مسلم اکثریتی آبادی والی ریاست جموں و کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق کرانے کے بجائے اپنے مذموم مقاصد کے تحت کشمیر کو متنازعہ بنایا اور اسکے تصفیہ کیلئے اپنا کیس اقوام متحدہ میں پیش کر دیا تاہم اقوام متحدہ نے کشمیری عوام کے حق خودارادیت کو تسلیم کرتے ہوئے کشمیر میں استصواب کا اہتمام کرنے کی ہدایت کی تو بھارتی لیڈران اپنی ہی درخواست پر یو این جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل میں منظور ہونیوالی قراردادوں پر عملدرآمد سے بھی منحرف ہو گئے۔ اس وقت کے بھارتی لیڈران کے دل میں کوئی فتور نہ ہوتا اور تقسیم ہند کے بعد وہ پاکستان کو ایک آزاد اور خودمختار مملکت کی حیثیت میں تسلیم کرلیتے تو ان کا اپنا پیدا کردہ تنازعہ کشمیر بھی اسی وقت حل ہو جاتا اور دونوں ممالک علاقائی تعاون کے ماتحت اپنے اپنے عوام کو خوشحالی اور ترقی کی منازل سے ہمکنار کر چکے ہوتے جبکہ یہ خطہ بھی مثالی امن و آشتی سے ہمکنار ہو چکا ہوتا۔ اگر ایسا ممکن نہیں ہوپایا اور بھارت آج بھی کشمیر پر کسی قسم کی بات چیت کیلئے آمادہ نہیں جس کا وزیراعظم نوازشریف نے گزشتہ روز انقرہ میں اظہار بھی کیا ہے تو یہ حقیقت اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ بھارت ہی سارے فساد کی جڑ ہے جس نے نہ صرف کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہیں ہونے دیا بلکہ اسکے ایک بڑے حصے پر اپنی افواج کے ذریعے تسلط بھی جمالیا جسے بعدازاں بھارتی آئین میں ترمیم کرکے باقاعدہ بھارتی ریاست کا درجہ بھی دے دیا گیا جبکہ اب وہ کشمیر پر اپنی اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی برقرار رکھ کر کسی بھی سطح پر ہونیوالے پاکستان بھارت مذاکرات کے دوران کشمیر کا تذکرہ بھی گوارا نہیں کرتا اور وہ اپنی جنگی تیاریوں اور جدید ترین اسلحہ اور گولہ بارود کی فراوانی کے زعم میں اب مقبوضہ کشمیر کے بعد آزاد کشمیر پر بھی اپنا تسلط جمانے کے خواب دیکھ رہا ہے جس کیلئے اس نے گزشتہ دو سال سے کنٹرول لائن پر چھیڑچھاڑ کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
جب یو این جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے کشمیری عوام کے حقِ رائے دہی کو تسلیم کیا تو بھارت کے پاس نادر موقع تھا کہ وہ کشمیری عوام کی رائے حاصل کرکے اسکی روشنی میں مسئلہ کشمیر حل کرتا اور اس خطے کو امن و آشتی کا گہوارا بنا دیتا مگر پاکستان کی سلامتی کیخلاف شروع دن سے ہی سازشیں پروان چڑھانے والے بھارتی لیڈران نے امن کے بجائے تخریب کی راہ اختیار کی جس پر وہ آج کے دن تک گامزن ہیںمگر دراندازی کا الزام پوری ڈھٹائی کے ساتھ پاکستان پر لگا کر اقوام عالم میں طوفان کھڑا کردیا جاتا ہے۔ اگر دنیا میں نظم و ضبط قائم کرنے کے ذمہ دار اقوام عالم کے نمائندہ ادارے اقوام متحدہ سے اپنے پیدا کردہ تنازعہ پر خود ہی فیصلہ کراکے اس سے بھی منحرف ہونا ہے تو پھر بھارت کے اس ہٹ دھرمی کے پس پردہ موجود اصل مقاصد بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں رہ سکتے جو پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانے پر مبنی ہیں۔ انہی مقاصد کے تحت بھارت پاکستان پر تین جنگیں مسلط کرکے سقوط ڈھاکہ کی شکل میں اس کا بڑا بازو کاٹ چکا ہے اور اب باقیماندہ پاکستان کی سالمیت کے بھی درپے ہے جس کیلئے وہ تنازعہ کشمیر کو ایک کارگر ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ کشمیر کا پاکستان سے الحاق نہ ہونے کے باعث ایک تو پاکستان کے وجود کی تکمیل ہی نہیں ہو پائی اور پھر بھارت کشمیر سے آنیوالے پانیوں کو روک کر باقیماندہ پاکستان کو ریگستان میں تبدیل کرنے کے بھی درپے ہے۔ چنانچہ یہ طے شدہ امر ہے کہ مسئلہ کشمیر حل نہ ہونے کی صورت میں پاکستان کی سلامتی بھی مستقل خطرات کی زد میں رہے گی اور علاقائی و عالمی امن و سلامتی کی بھی کوئی ضمانت فراہم نہیں کی جا سکے گی۔ بھارتی نیت تو اس معاملہ میں بالکل واضح ہے کہ اس نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے نہ صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کو تسلیم نہیں کیا بلکہ اب وہ اس مسئلہ کے حل کے معاملہ میں اقوام متحدہ کی ثالثی کی پیشکش کو بھی رعونت کے ساتھ مسترد کر چکا ہے اور یو این سیکرٹری جنرل کو باور کراچکا ہے کہ وہ اپنی حدود میں رہیں اور کشمیر پر ثالثی والے اپنے کسی کردار کو ذہن سے نکال دیں۔
اس بھارتی سوچ کی موجودگی میں تو پاکستان بھارت مذاکرات کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر کے حل کی قطعاً توقع نہیں کی جاسکتی اور اب تک ہونیوالے پاکستان بھارت مذاکرات کا انجام اسکی گواہی ہے۔ پھر کیا پاکستان کے حکمران بھیگی بلی بنے بیٹھے رہیں‘ کشمیر پلیٹ میں رکھ کر ازخود بھارت کے حوالے کر دیں اور اس طرح ملک کی سالمیت پر خود ہی کلہاڑی چلا دیں یا پاکستان کی بقاء اور اسکے وجود کی تکمیل کیلئے وہ کشمیر کو بھارتی تسلط سے آزاد کرانے کی کوئی ٹھوس حکمت عملی طے کریں؟ وزیراعظم نوازشریف نے انقرہ سہ ملکی کانفرنس کے موقع پر یقیناً اسی تناظر میں مسئلہ کشمیر پر بھارتی ہٹ دھرمی کا تذکرہ کیا ہے اور باور کرایا ہے کہ بھارت تو مسئلہ کشمیر پر بات سننا بھی گوارا نہیں کرتا۔ اگر بھارت اپنی ہٹ دھرمی چھوڑنے پر آمادہ ہی نہیں تو پھر ملکی سلامتی کی خاطر ہمیں یہ گتھی سلجھانے کا بہرصورت دوسرا لائحہ عمل طے کرنا ہو گا جو بھارت کا حربی زعم توڑ کر اسے سبق سکھانے کی حکمت عملی پر ہی مبنی ہو سکتا ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ پہلے پاکستان اپنی بہترین سفارتکاری کو بروئے کار لا کر بھارتی عزائم دنیا کے سامنے رکھے‘ اقوام عالم کے نمائندہ اداروں کو ان بھارتی عزائم سے عالمی امن و سلامتی کو لاحق خطرات سے بھی آگاہ کرے اور اسکی روشنی میں امریکہ اور دوسری بڑی طاقتوں کو بھارت پر دبائو ڈال کر مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کردار ادا کرنے پر قائل کرے جبکہ دنیا کو یہ بھی باور کرادیا جائے کہ مسئلہ کشمیر کا بذریعہ طاقت حل نکالنے کا راستہ عالمی امن و سلامتی کیلئے کتنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ اسکے باوجود بھارت مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کوئی دبائو خاطر میں نہیں لاتا تو پھر پاکستان کے پاس اپنی سلامتی کے تحفظ کیلئے اپنی ایٹمی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے سوا اور کیا آپشن بچے گا جبکہ بھارت اپنی ہٹ دھرمی سے پاکستان کو مسئلہ کشمیر کے حل کے اس آپشن کی جانب ہی دھکیل رہا ہے جس کے نتائج بھگتنے کیلئے پوری دنیا کو تیار رہنا چاہیے۔
جب میاں نوازشریف اس حتمی نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ بھارت مسئلہ کشمیر پر بات چیت کیلئے قطعاً تیار نہیں تو پھر اسکے ساتھ دوستی اور تجارت کے بندھن باندھنے کیلئے یکطرفہ بے تابی کے مظاہرے کرنے کی کیا ضرورت ہے جبکہ ایسی سوچ بھارت کے سامنے ہماری کمزوری کو ظاہر کرتی ہے۔ ہم ایٹمی قوت ہیں۔آج اس سوچ سے باہر نکلنے اور دشمن کو اسکی زبان میں جواب دینے کیلئے عملیت پسندی کی راہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اب کشمیر پر اپنا کیس بھی مضبوط کریں اور اپنا دفاعی حصار بھی مضبوط بنائیں۔ یہی مکمل سالمیت کا تقاضا اور بھارتی سازشوں کا توڑ ہے۔