اسلام آباد(ایجنسیاں+ نوائے وقت نیوز) سپریم کورٹ نے پشاور چرچ حملہ کیس میں چاروں صوبوں کی جانب سے اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی تفصیلات اور سکیورٹی کے بارے میں مفصل رپورٹ 20فروری تک طلب کرلی، عدالت نے ٹنڈو آدم میں ہندوئوں کی عبادت گاہوں کے حوالے سے مسائل بارے سندھ حکومت سے رپورٹ طلب کرلی ہے، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی بجائے سیکشن آفیسر کے پیش ہونے پر عدالت نے سخت اظہار برہمی کیا جبکہ جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ اقلیتوں کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کرنا ریاست کی آئینی اور قانونی ذمہ داری ہے، ادارے کیا کررہے ہیں اور اب تک معاملات بہتر کیوں نہیں ہو رہے۔ جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت وہ وعدہ ہی کیوں کرتی ہے جو وہ وفا نہیں کرسکتی۔ وزیراعظم نے دس کروڑ روپے دینے کا وعدہ کیا تھا اگر وہ نہیں دینے تھے تو پھر اس کے اعلان کی کیا ضرورت تھی۔ صوبائی حکومتوں کی جانب سے اقلیتوں کی عبادت گاہوں اور سکیورٹی کی تفصیلات جمع نہ کرائی جاسکیں جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا اور کہا ہے کہ ایسا کب تک چلے گا اقلیتوں کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کیا جانا چاہئے۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی عدم پیشی پر عدالت نے کہا کہ سیکشن آفیسر کو بھیج کر حکومت کیا ثابت کرنا چاہتی ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ پنجاب میں سب سے زیادہ اقلیتیں موجود ہیں مگر کسی کو احساس نہیں۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو ذاتی طور پر پیش ہونے کا حکم دیا۔
اقلیتی عبادت گاہوں کا تحفظ حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے‘ ادارے کیا کر رہے ہیں: سپریم کورٹ
Feb 14, 2014