کبھی اے حقیقتِ منتظر

یہ بات مجھے اپنی بہن فاطمہ قمر کو بتانی ہے۔ جو نفاذِ اردو کے لئے اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر دیوانہ وار کام کر رہی ہیں۔ بیداری اور ذمہ داری میں جنون کی حد تک اپنا حصہ ڈال رہی ہیں۔ عدالتوں کے فیصلوں کو سراہ رہی ہیں۔ اور جس محفل میں جاتی ہیں۔ جھٹ قومی زبان کی اہمیت پر بولنے لگتی ہیں اور قائداعظم کے اقوال دہرانے لگتی ہیں۔
کیا اردو زبان کو پاکستان کے اندر اس کا اصلی مقام دلوانا صرف محترمہ فاطمہ قمر اور ان کی ٹیم کا فریضہ ہے۔ یا ارباب اقتدار و اختیار بھی اس ضمن میں اپنا فرض ادا کریں گے اور احساس کمتری کا خول اتار کر پھینک دیں گے۔
میری بہن فاطمہ قمر کو باور ہو کہ رات بھر میں خانہ کعبہ کے باہر بیٹھی رہی تھی۔ ایک رات ایسی مل گئی تھی کعبتہ اللہ کو دیکھنے کے بعد ہر آنے جانے والے کو بس دیکھتی رہتی تھی۔ اور سامنے والی دیوار پر میری نظر جا کر رک جاتی تھی وہاں ہدایات کے بورڈ آوایزاں تھے۔ ایک بورڈ عربی زبان میں لکھا ہوا تھا۔ دوسرا انگریزی زبان میں رقم تھا اور تیسرا بورڈ اردو زبان میں تھا۔
گویا سعودی عرب میں تیسری بڑی زبان اردو زبان ہے۔ وہاں اردو زبان بولنے والوں اور سمجھنے والوں کی اکثریت ہے اور تو اور خود مقامی عرب باشندے روانی سے اردو بولتے ہیں۔ دنیا بھر سے اردو سمجھنے والے لوگ وہاں آتے ہیں۔ پاکستان انڈیا کے علاوہ بنگلہ دیش، سری لنکا، مالدیپ، نیپال، برما کشمیر اور کئی دوسرے ملکوں کے لوگ اردو بولتے اور سمجھتے ہیں۔ آپ کسی فائیو سٹار ہوٹل میں جائیں اور کہیں کہ اردو بولنے والا سٹاف بلا دو۔ فوراً کاﺅنٹر پر کوئی آ جائے گا۔ دکانوں میں، سٹوروں میں، راہ داریوں روشوں میں حتیٰ کہ سعودی عرب میں کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں آپ کو اردو بولنے اور سمجھنے والے نہ مل جائیں۔ وہاں رابطے کی تیسری بڑی زبان اردو ہی ہے۔
یہ دردناک حقیقت صرف پاکستان میں دیکھنے کو ملتی ہے کہ پاکستان ائرپورٹ پر اترتے ہی آپ کو ہر بورڈ، ہر اشارہ پر ہدایت انگریزی میں لکھی ہوئی ملتی ہے۔ انگریزی میں ہدایات اور اشارے لکھنا معیوب نہیں ہے۔ سیاحوں کے لئے یہ سہولت بہت ضروری ہوتی ہے مگر اس کے ساتھ ہی اردو میں لکھ دینے میں کیا قباحت ہے۔ آپ ائرپورٹ سے بازاروں تک آ ئیں سب دکانوں کے بورڈ اور زیادہ تر بل بورڈ انگریزی میں نظر آئیں گے۔ یہ ملک ابھی انگریزوں کی ایک کالونی نظر آتا ہے۔ ہمارے ایک امریکن دوست نے کہا تھا پاکستان میں ذرا بھی اجنبیت محسوس نہیں ہوتی۔ ہوائی اڈے سے لیکر ہوٹلوں اور بازاروں میں سب کچھ انگریزی میں لکھا ہوتا ہے۔
چین، جاپان، ترکی، انڈونیشیا، ملائشیا، ایران اور بہت سے عرب ممالک اور سنٹرل ایشیا میں تمام بورڈ، بل بورڈ، ہدایات اپنی قومی زبان میں لکھی نظر آتی ہیں۔ کہیں کہیں چھوٹا سا اشارہ انگریزی میں نظر آ جاتا ہے۔
ہم میں سے کوئی بھی انگریزی زبان کا مخالف نہیں ہے۔ آج دنیا بھر میں رابطے کی بڑی زبان انگریزی ہی ہے مگر انگریزی کی محبت میں اردو کے ساتھ دشمنی رکھنا کہاں کا انصاف ہے۔ یہ بات حکمرانوں سے شروع ہوتی ہے۔ وہ اپنے احساس کمتری پر پردہ ڈالنے کے لئے انگریزی میں تقریر کرتے ہیں اور انگریزی بولتے ہیں۔ کیا آپ کا خیال ہے ترکی کے صدر طیب اردگان انگریزی نہیں جانتے۔ ایک ملاقات کے دوران جب بھی میں نے ان سے انگریزی میں سوال کیا انہوں نے جھٹ اپنے مترجم کے ذریعے مجھے اپنی قومی زبان میں جواب دیا۔یہاں ابھی تک لوگ اپنی انگریزی دانی کی دھاک بٹھانے میں سر دھڑ کی بازی لگانے میں لگے رہتے ہیں۔
اردو زبان کا دامن بہت وسیع ہے اور اس کے ساتھ ان عالی مرتبت شخصیات کا خیال آ گیا جنہوں نے زندگی بھر اردو زبان کی خدمت کی اور اردو ادب کو ہر طور مالامال کیا۔ گزشتہ دنوں ایسی ہی بھاری بھرکم شخصیت جناب انتظار حسین صاحب ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔ انہوں نے عالمی سطح کا اردو ادب تخلیق کیا۔ ساری زندگی اردو لکھنے میں وقف کر دی حالانکہ وہ انگریزی میں بھی کالم سکتے تھے۔ مگر آج ان کی لکھی کتابیں ادب عالیہ کا درجہ رکھتی ہیں اور عالمی تناظر میں پڑھی جاتی ہیں۔ ان جیسا ادیب صدیوں میں پیدا ہوتا ہے اور ان کا کیا ہوا کام ہمیشہ زندہ و پائندہ رہے گا۔
ابھی ابھی محترمہ فاطمہ ثریا بجیا ہم سے جدا ہوئی ہیں۔ ٹی وی اردو ڈرامہ کو انہوں نے ایک نئی نہج عطا کی۔ اپنی زبان، اپنی ثقافت، اپنی بود و باش پر انہیں ہمیشہ فخر رہا اور یہ فخر انہوں نے آنے والی نسلوں کو منتقل کیا۔ مکالمہ نگاری میں آداب اور تہذیب کا آہنگ متعارف کرایا۔ ان کے ڈراموں میں ایک ایسی تہذیب اور ثقافت ہوتی تھی جو ہمارے اسلاف کی تاریخ بیان کرتی تھی۔ آج کا ڈرامہ اخلاقیات اور تہذیب و تمدن کے بغیر بے روح ہو گیا ہے۔ آج پھر محترمہ فاطمہ ثریا بجیا جیسے لکھے ہوئے ڈراموں کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ ٹیلی ویژن ڈراموں میں ایک گنگا جمنی زبان ضرور بولی جاتی ہے مگر اسے اردو زبان نہیں کہہ سکتے۔ جب تک کوئی اینکر اپنی گفتگو میں انگریزی کا تڑکا نہ لگائے اس کا احساس کمتری دور نہیں ہو پاتا۔
انہی دنوں محترمہ نسرین انجم بھٹی بھی داغ مفارقت دے گئیں۔ نسرین انجم بھٹی اردو اور پنجابی کی بڑی معروف لکھاری تھیں۔ زیادہ زندگی ان کی ریڈیو کی خدمت گزاری میں بسر ہوئی انہوں نے اردو میں بھی افسانے لکھے۔ مگر انہیں پنجابی کی ایک باوقار اور شاندار لکھاری کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ ان سے کئی محفلوں میں ملاقات ہو جاتی تھی۔ ان کو اپنی قد آوری کا ذرا بھی احساس نہیں تھا۔ بہت خاموشی سے، بہت انکساری سے محفل میں آ کر بیٹھ جاتی تھیں۔ بہت دھیمے لہجے میں بہت اچھی بات کرتی تھیں۔ بہت نفیس خاتون تھیں۔
باری تعالیٰ ان سب مرحومین کی مغفرت فرمائے۔ آمین۔ ملک و ملت کے لئے ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ وہ اردو کے حوالے سے ہو، یا پاکستان کی کسی بھی زبان کے حوالے سے ہو۔ پاکستان کی ساری زبانیں بہت خوبصورت ہیں۔ سب زبانوں میں لکھنے والے بساط بھر اپنی زبان کی ترقی اور ترویج کی کوشش کر رہے ہیں اللہ توفیق دے تو بندے کو بہت سی زبانیں سیکھنی چاہئیں۔ زبانیں کبھی نفاق کا باث نہیں بنیں۔ مختلف زبانیں تو آپس میں محبت کرنے اور بھائی چارہ بڑھانے کے لئے بنائی گئیں۔ ساری دنیا میں بسنے والے مسلمان، مختلف ملکوں میں، مختلف زبانیں بولنے والے مسلمان ہمیشہ نماز عربی زبان میں پڑھتے ہیں۔ کلام پاک عربی زبان میں پڑھتے ہیں۔ یہ باری تعالیٰ کی زبان ہے۔ رب ذوالجلال اپنی زبان میں اپنی اپنی خلقت سے باتیں کرتا ہے اور نماز میں رب کی خلقت اپنے رب سے ہمکلام ہوتی ہے۔ اسی کی زبان میں اور تصور میں کعبتہ اللہ یعنی اللہ کا گھر ہوتا۔ یہ یقین اور گمان کس قدر قابل رشک ہے۔ نامسلم دنیا اس ایمان بالغیب پر حیران بھی ہے اور پریشان بھی اور پھر جس کی سمجھ میں یہ عرفان اتر جاتا ہے وہ کلمہ پڑھ لیتا ہے اور کہہ اٹھتا ہے....
کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں میری جبینِ نیاز میں!

ای پیپر دی نیشن