پاکستان ریلوے دوسری طرف ایک غیر سیاسی ادارہ ہے یہاں پر کچھ دن پہلے پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر یلوے نے بر ملا کہا کہ جس کو مجھ سے ذاتی کام ہے یا سیاسی طورپر ملنا چاہتا ہے وہ میرے پبلک سیکرٹیریٹ آئے، ریلوے میں بیٹھ کر صرف ریلوے کی بات ہوگی۔ ایک صحافی نے عمران خان کے متعلق سے سوال کیا تو صاف جواب دیدیا کہ سیاست کی بات میدان میں ہوگی حکومتی ادارے میں بیٹھ کر سیاسی گفتگو نہیں کی جاسکتی۔میڈیا بھی وزیر ریلوے اورمسلم لیگ ن کے سیاسی لیڈرخواجہ سعد رفیق میں فرق کرے۔مجھے کچھ کالم نگاروں پر حیرت ہے کہ انہوں نے وہ گناہ بھی ریلوے کے حصے میں ڈال دیئے جو ادارے نے کیے ہی نہیں۔سیاسی بیانات پرسیاسی تنقید کرنے یا سیاسی کالم لکھنے کی بجائے ریلوے پربے جا تنقیدشروع کردی گئی ستم تو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے ٹرین حادثات پر توجہ دلاؤ نوٹس پارلیمنٹ میں جمع کروایاآپکو تو جواب دینا چاہیے کہ آپکے پانچ سالہ دورِاقتدار میں صرف سات پھاٹک بنائے گئے جس میں کہ خدانخواستہ آپ کی کوئی پالیسی ،پروگرام یا کاوش تک شامل نہیں تھی بلکہ یہ مقامی نمائندگان یا پبلک کے اصرار پر بنائے گئے تھے۔ جبکہ اس دور میں اب تک پنجاب میں 75کراسنگز پر پھاٹک لگائے گئے ہیں اور مزید 75 سے 80اس سال لگ جائینگے۔ عوام سوچیں گے کہ صرف پنجاب کیوں؟ تو اسکی سادہ سی قانونی وجہ یہ ہے کہ ریلوے پھاٹک بنانا اور اسکی دیکھ بھال کرنا اس اتھارٹی یا اس حکومت کی ذمہ داری ہے جس کی سڑک پر ریلوے کراسنگ ہے۔ اس ضمن میں تین سال قبل پاکستان کی تاریخ کا پہلا ایسا سروے کروایا گیاجس میں پھاٹک اور بغیر پھاٹک والی تمام ریلوے کراسنگ کی نشاندہی کی گئی اور پھر چاروں صوبوں کو خط لکھے گئے کہ وہ کھلی کراسنگ پر گیٹ نصب کرنے کیلئے فنڈز دیں۔اس مد میں اب تک صرف پنجاب حکومت نے تعاون کیا جسکی وجہسے75 خطرناک مقامات پر گیٹ نصب کیے جاسکے۔ مزیدیہ کہ سندھ کی حکومت نے بھی اس مقصد کیلئے ساڑھے دس کروڑ روپے دیے جس سے سندھ میں 17مقامات پر پھاٹک لگائے جاسکیں گے۔ اب ایک چھوٹاسا موازنہ کریں کہ پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دورِاقتدار میں سات پھاٹک لگائے گئے اوراس سال کے آخر تک دوسو پھاٹک لگائے جاچکے ہوں گے۔پیپلز پارٹی کے دور میں حکومت ریلوے کو لائف سیونگ انجکشن دے دیکر تھک چکی تھی اورنجکاری کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا تھا۔ یہ ریلوے صرف 18ارب روپے کما رہی تھی جبکہ یہی منافع اب چھلانگ مارکر 40ارب تک جا پہنچاہے۔ خسارے میں کمی اس کے علاوہ ہے وہ بھی بغیرکسی معجزے اور جادو کے۔اس میں مزدوروں، سٹاف، افسران اور وزیرریلوے سب کی شبانہ روز کاوشیں شامل ہیں۔ ذرا پوچھیے اْن سے جنہوں نے پچھلی کئی چھٹیاں اپنی فیملی کے ساتھ نہیں گزاریں۔ کمیٹی روم کی دیواریں گواہ ہیں کہ یہاں رات گئے تک میٹنگیں ہوتی ہیں اوروزیر ریلوے ایک ایک افسر سے گھنٹوں فیڈ بیک لیتے ہیں۔ہرنئے پراجیکٹ پر افسران سے بحث کی جاتی ہے۔یہ خود بھی پوائنٹ یاد رکھتے ہیں اورافسران کوبھی مجبور کرتے ہیں کہ متعلقہ شعبے کے بارے میں اْنکی معلومات up to dateہوں۔ اور ہر کام کا time frameدیتے ہیں۔ اور اْس time frameکو یادبھی رکھتے ہیں۔ہر شخص کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق ایک سیاسی ورکر بھی ہیں جن کی سیاسی جدوجہد پر اپوزیشن اور میڈیاکسی کو کوئی شک نہیں۔ اگر وہ سینہ ٹھوک کر ریلوے ہیڈ کوارٹر میں کہتے ہیں کہ ایک آدمی ذاتی پسند پر بھرتی نہیں کیا۔ کسی کو نہیں نوازا۔ کرپشن کا کوئی چارج نہیں۔ اور میں ریلوے ہیڈکوارٹر میں بیٹھ کر عمران خان پر تنقید نہیں کروں گا تو انکی یہ بات بھی اْسی طرح ہائی لائٹ ہونی چاہیے جیسے کھٹی میٹھی سیاسی گفتگو کو کئی گھنٹے چینلوں پر چلایا جاتا ہے۔ سیاست بڑی ظالم چیز ہے اس میں دونوں پارٹیاں پیچھے ہٹنے کو شکست ہی سمجھتی ہیں۔ جہاں اْنکے سیاسی بیانات کی سزا ان کی ریلوے کیلئے خدمات کو دی جارہی ہے وہاں توازن صحافت کا اصول یہ ہے کہ تنقیدضرور کریں۔ کون روکتاہے؟ مگر جو جسکے حصے کا کریڈٹ ہے وہ بھی دیا جانا چاہیے۔ آنکھوں پر تعصب کی پٹی باندھ کر دیکھنے سے سب کالا دکھائی دیتاہے۔ریلوے کے حادثات کا ملبہ بھی انتظامیہ اور وزیر پر ڈال کرگویا ایک بڑا فرض ادا ہو جاتاہے۔ کسی صاحبِ عقل نے کیا کبھی یہ سوچاہے کہ جو شخص پوری سڑک چھوڑکر عین ٹرین کے آنے کے وقت تین سے چار فٹ کی پٹری گھیر لیتا ہے اس کا قصور کتنا ہے؟ سیفٹی اور سیکورٹی کے معاملات پر ذمہ داری مشترکہ ہوتی ہے۔ ایسے معاملات کو سیاسی دکان چمکانے کی بجائے سنجیدگی سے حل کرنے کے متعلق سوچنا چاہئے۔ ریلوے میں معاملات پہلے کی بہ نسبت بہت بہتر ہوئے ہیں اور آنیوالے وقت میں مزید بہتر ہونگے۔ انسانی غلطی سے ہونیوالے حادثات کو روکنے کیلئے نئے قوانین بنائے جارہے ہیں پرانے سسٹم کی جگہ نئی ٹیکنالوجی لاکر بہت سے مسائل پر قابو پا لیا جائے گالیکن ہر پالیسی کے اطلاق کیلئے متواترمحنت اورایک خاص وقت درکار ہوتا ہے۔ سی پیک کے ثمرات میں ریلوے ٹریک کی اپ گریڈیشن بھی شامل ہے جسکے بعدریلوے بین الا قوامی طریقے کار سے چلائی جائیگی۔ریلوے عوام کی سواری ہے اس دور میں قریباً ایک ہزار روپے کرائے میں کونسی ٹرانسپورٹ ہے جومسافر کولاہور سے کراچی پہنچاسکتی ہے۔یہ سبسڈی پورے پاکستان کے سفرپر عوام کو دی جاتی ہے۔ یہ کسی پر احسان نہیں، عوام کی خدمت ہے لیکن عوامی اداروں کی کردار کشی نہ صرف اس میں کام کرنیوالے ہزاروں ورکروں کا دل دکھاتی ہے بلکہ عوام کے اعتماد کوبھی جھٹکالگتاہے۔
ریلوے پر تنقید
Feb 14, 2017