عربوں سے کی گئی دشمنی کی سزا

عربوں کے ہاں قدیم ضرب المثل ہے کہ ’’ ایک قوم پر نازل ہونیوالے ’’مصائب‘‘ دوسری (مخالف) قوم کیلئے ’’فوائد‘‘ ہوتے ہیں‘‘ اصل موضوع کو زیر بحث لانے سے پہلے سعودی سفیر جناب عبداللہ بن مرزوق الزھرانی کا موقف‘ دنیا کے حالات اور ترجیحات تبدیل ہوتے رہتے ہیں اسی طرح مدت سے سعودی ترجیحات اور پروگرام بھی تبدیل ہو چکے ہیں وہ عہد مدت ہوئی ختم ہو چکا کہ سعودی عرب افراد وشخصیات اور جماعتوں میں مالی تعاون کی خیر خواہانہ محبتیں تقسیم کرتا تھا۔ نقد رقوم یا چیک بک کا استعمال سعودی عرب نے مکمل طورپر بند کیا ہوا ہے۔ تعاون ہر قسم کا صرف ریاست اور حکومت کے ذریعے پیش کیا جاتا ہے ‘‘ یہ بات جناب الزھرانی نے مجھ سے گزشتہ ہفتے کی ملاقات میں کہی۔ میں سمجھ گیا کہ وہ برادرم (سیکولر) ایاز میر کے دی نیوز جنگ میں بار بار سعودی ’’چیک بک‘‘ استعمال کرنے کے الزامات کی دو ٹوک تردید کررہے تھے۔ ان کا موقف ہدیہ قارئین ہے تاکہ سعودی عرب کے حوالے سے سیکولر ولبرل اور فرقہ پرستانہ متعصب روئیے جو موجود ہیں وہ صراط مستقیم کی طرف لوٹ آئیں اور نفرت کی آگ جلانا بند کر دیں جیسا کہ 40 ممالک کے اسلامی عسکری اتحاد‘ سعودی عرب اور جنرل راحیل شریف کیخلاف فضا اور ماحول کو زہر آلود بنا دیا گیا ہے۔عرب سادہ لوح‘ مخلص اور وفادار دوست ہوتے ہیں مگر جواب میں انہیں اکثر بدعہدی‘ سازش‘ فوائد حاصل کر چکنے کے بعد ردی کی ٹوکری میں یا منظر سے ہٹایا جانا تلخ ترین زمینی حقیقت ہے۔
امریکہ اور سعودی عرب میں تعاون کی بنیادیں شاہ عبدالعزیز عہد میں استوار ہوئیں۔ سعودی عرب کے تیل ومعدنی وسائل ودولت سے امریکہ ومغرب نے بھرپور فوائد حاصل کیے پھر سعودی عرب‘ بحرین‘ کویت‘ قطر‘ متحدہ عرب امارات کی دوستانہ حکومتوں کے انہدام اور سنی عرب مالدار ریاستوں کے جغرافیے کو ’’جدید مشرق وسطیٰ‘‘ بنانے کیلئے سنجیدہ امریکی ایجنڈے تیار ہوئے۔ آغاز صدام حسین کو کویت پر حملہ آور ہونے کی شہہ سے ہوا۔ پھر صدر بش سینئر نے شاہ فہد سے دھوکہ دہی کی۔ اصل حقائق بتانے کی بجائے اندہیرے میں رکھا‘ اور خوف جہنم میں دھکیل کر امریکی افواج جبراً نازل کر دی گئیں۔ یوں سنی عربوں کی دولت سے ان کو دشمنوں سے بچانے کے نام پر وافر لوٹ مار کی گئی صرف اپنی ’’آمدن‘‘ کیلئے انہیں غیر حقیقی خوف میں مبتلا کرکے انکو ’’یرغمال‘‘ بھی بنایا گیا ۔ دوسری طرف رازداری سے مسقط کے ذریعے ایرانی شہہ دماغوں کے ساتھ مستقبل کے ’’جدید شیعہ مشرق وسطی ‘‘کے تانے بانے تیار کیے گئے ۔ اس کیلئے 9/11 کو استعمال کیا گیا تھا۔ عراق پر حملہ شاہ عبداللہ کے روکنے کے باوجود یوں کیا گیا کہ ایرانی مدد سے عراقی شیعہ علماء واہل سیاست کو نیا اقتدار مرحلہ دوستانہ طور پر بطور تحفہ دیا گیا۔ نور المالکی جیسے کرپٹ ومتعصب وسنی دشمنی کو اقتدار دیا گیا۔ جب خود شیعہ عراقی باغی ہوگئے تو پھر مالکی کی جگہ دوسرے مالکی یعنی (موجودہ وزیراعظم العبادی) کو لایا گیا۔ عرب ریاستوں میں ایرانی توسیع وبرآمدگی مسلکی انقلاب کی فصل بہار کیلئے ’’عرب بہار‘‘ کا بھی دھوکہ دیا گیا مگر شاہ عبداللہ بہت کچھ بھانپ گئے تھے لہذا ’’خلیجی عرب یونین‘‘ کی تشکیل اور ’’خلیجی متحدہ عسکری فوج‘‘ کا خاکہ انہوں نے پیش کیا۔ مگر ایران نے اسے اپنی دشمنی کا نام دیکر اس سعودی مثبت منصوبے کو ناکام بنایا ورنہ داعش کبھی بھی وجود میں نہ آتی جسے عملاً امریکہ وایران نے خود بنایا تاکہ ’’جدید مشرق وسطیٰ‘‘ کی ایرانی وامریکی منصوبہ بندی کام یاب ہو جائے۔ اور مالدار عربوں کو یرغمال بھی رکھا جاسکے۔ اوبامہ عہد عربوں سے بے وفائی‘ غداری اور ایران سے پراسرار بش منصوبوں کی تکمیل میں صرف ہوا اسی لیے شام میں سنی عرب اپوزیشن کو کمزور رکھا گیا۔ جان بوجھ کر داعش والنصرہ فرنٹ والقاعدہ کو آزادی فراہم کرکے پراسرار طریقے سے مالی وعسکری فوائد دیکر سعودی وخلیجی مثبت منصوبے کو کچل دیا گیا۔ سعودی غصے میں آئے مگر چپ رہے البتہ اوبامہ کی بکواس پر شاہ فیصل کے لخت جگر شہزادہ ترکی الفیصل چیخ اٹھے کہ امریکہ نے ہمیشہ سعودیوں سے مالی وسیاسی و سٹرٹیجک مدد وصول کی ہے اور اب اسی محسن سعودی عرب کو آنکھیں بھی دکھائی جارہی ہیں؟ یہ عرصہ امریکی وسعودی شدید تلخیوں اور ایران وامریکہ بہت محبتوں کا عہد تھا۔ حادثاتی طور پر اب ٹرمپ آگئے ہیں کیا ڈیموکریٹ منافقت کیلئے عذاب نہیں ہے؟ عربوں سے دشمنی کی سزا نہیں؟ پنجابی کہاوت ہے کسی کو مانہہ موافق کسی کو بادی‘‘ صدر ٹرمپ ایران کیلئے ’’بادی‘‘ یعنی مخالف کے طورپر اور سعودی وخلیجی ایجنڈے کیلئے دوست اور موافق ثابت ہورہے ہیں۔ وہ بشار الاسد کے حامی نہیں بلکہ عربوں کی سنی اپوزیشن کے مددگار بن رہے ہیں۔ ایران کا بازو مروڑ کر اسے یمن‘ عراق اور شام میں داخل شدہ اپنے مالی وعسکری وجود سے جارحانہ عدم استحکام کے کام کو بند کرنے پر مجبور کررہے ہیں ویسے عربی وسعودی دانش کمال کی چیز ہے۔ ناراض ہو بھی یہ بولتی بہت ہی کم ہے انتخابات میں سعودی خاموش رہے تھے۔ جب ٹرمپ جیت گئے تو ان کے ارد گرد ایسے افراد اچانک سامنے آگئے جو مشرق وسطیٰ میں ایران کو فتنہ وفساد کا بانی تصور کرتے ہیں اور عربوں کے ساتھ بش واوبامہ عہد کے ظلم کے ازالے کے داعی بھی ہیں۔ یوں صدر ٹرمپ اور اسکے رفقاء نے سعودی کشتی کو دوبارہ سے سہارا دے دیا ہے۔ اسی کا نام ایک قوم کے مصائب دوسری قوم کیلئے فوائد ہیں یعنی ایران کیلئے ٹرمپ مصائب جبکہ سعودیہ کیلئے ٹرمپ فوائد ہیں اس لیے شاہ سلمان نے صدر ٹرمپ کی طرف سے پیش کیا گیا دوستی کا ہاتھ ’’تھام‘‘ لیا ہے۔ مگر عربوں کو بہت زیادہ محتاط رہنا ہوگا۔ امریکی کسی بھی وقت بے وفائی اور غداری کی ہم رنگ سیاست وتاریخ رکھتے ہیں۔ لہٰذا سعودی عرب کو دوراندیش اور عالم اسلامی کے روحانی قائد کا منصب دوبارہ سے سنبھالنے کیلئے ایران کو ماضی کی بے وفائی (کہ شاہ عبداللہ عہد ایران کیلئے محبتوں اور تعاون تحفوں کا بہار عہد تھا) معاف کرنا ہوگا ۔ 40 اسلامی ممالک عسکری اتحاد منصوبہ کا مستقبل محفوظ ہے۔ ایران کو بھی صدر ہاشمی رفسنجانی وصدر خاتمی عہد کے صلح جو روئیے دوبارہ سعودیہ کیلئے اپنانا ہونگے اور سعودی شاہ یا ولی عہد کو تہران میں دوستانہ دورے کیلئے مدعو کرنا ہوگا۔

ای پیپر دی نیشن