پاکستان کی آ س زندہ ہے

پاکستان مملکت خداد داد ہے، اسے آگے بڑھنا ہے، اسے زندہ رہنا ہے، اسے ترقی کرتے ہی جانا ہے، یہ کہنا تھا افتخار سندھو کا، ان سے دو گھنٹے کی ملاقات ہوئی تھی ایک حصہ میں نے اپنے کالم میں لکھا تو سندھوصاحب کا فون آیا کہ بہت بے ربط لکھا ہے اور انہوں نے فون بند کر دیا۔ مجھے یوں لگا کہ ستریا، بہتریا۔ ہو گیا ہوں۔ سندھو صاحب لازمی طور پر میڈیا کے کردار سے نالاں ہیں مگر وہ میرے کردار سے بھی مایوس سے تھے میں سوچنے لگا کہ مجھ سے غلطی کہاں ہو گئی، کیا میں حادثے کا شکار اپنی گاڑی کی مرمت کا بل دیکھ کر جو سٹپٹا گیا تھا، اس کے زیر اثر اپنے مہمان سے انصاف نہ کر سکا، مگر میں کبھی حالات کے زیر اثرآیا تو نہیں تھا، میرے اوپر پینسٹھ کی جنگ میں بھارتی بمبار نے پانچ سو پونڈ وزنی بم پھینکا، وہ تو اللہ کا کرم ہوا کہ ایک گھنے پیڑ کی آڑ میسر آ گئی، پھر بھی میں نے حواس قائم رکھے تھے، یہ تو جوانی کی بات ہے، جب میں دور تک دیکھ سکتا تھا، مستقبل کے خوابوں پر نظر تھی، اب دو سال قبل میری بیگم کا دل کاآپریشن ہوا، تین ماہ میں تین آپریشن اور آخری دو آپریشن پندرہ پندرہ روز بعد، وہ آئی سی یو میں تھیں اور میں کمرے میں ان کے لئے یا تو دعا کرتا، یا لیپ ٹاپ کھول کر کالم لکھنے بیٹھ جاتا، اس عالم میںمیرے کالم بے ربط تو کیا بے ضبط بھی نہیں ہوئے تو اب سندھو صاحب کو شکائت کا موقع کیوں ملا، مجھے حقیقت حال جاننے میں زیادہ مغز نہ کھپانا پڑا، اب مجھے مان لینا چاہئے کہ بوڑھا ہو گیا ہوں، میرے لئے مستقبل بے معنی ہو گیا ہے، میری نظریں دور تک نہیں دیکھ سکتیں، دور کیا، سامنے بیٹھے انسان کے چہرے کے خدوخال کو نہیں پہچان پاتا تو میری تحریر میں ربط کہاں آ ئے گا مگر یہ تصویر کا ایک رخ ہے، میںنے اپنا کالم پھر پڑھا، بار بار پڑھا، مجھے کوئی جھول دکھائی نہ دیا، میں نے کوشش کی تھی کہ ایک ایسے کردار کی کہانی لکھوں جو معاشرے میں آوارہ گرد سمجھا جاتا ہے مگر پھر قسمت کا دھنی ثابت ہوتا ہے۔ ایسے کردار خال خال ملتے ہیں، اصل میں یہی وہ لوگ ہیں جو خوش قسمت ہوتے ہیں جو سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا نہیںہوتے مگر اپنی قسمت خود بناتے ہیں مجھے یاد ہے کہ ایک زمانے میں بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے میں نے پبلشنگ شروع کی، مگر پلے پیسے نہ تھے، گنپت روڈ پر کاغذ کے بیوپاریوں سے کہتا کہ میری کتاب بیسٹ سیلر ثابت ہو گی اور میں صرف دو ماہ میں کاغذ کا ادھار واپس کر دوں گا، وہ مجھ پر ہنستے کہ ایک طرف یہ حضرت ہیں جو چند پیکٹ کاغذ کے لئے منت سماجت کر رہے ہیں مگر پڑھے لکھے ہیں اور مشہور اخبار نویس بنے پھرتے ہیں اور دوسری طرف ہم ہیں جو میٹرک میں فیل ہو گئے۔ حساب میں ہمیشہ کمزور رہے اور باپ کے ساتھ دکان پر بیٹھ گئے، اب ہم ہر شام لاکھوںروپے گن کر گھر لے جاتے ہیں اور یہ چند رم کاغذ کو روتے پھرتے ہیں، یہ باتیں طنزیہ نہیں تھیں، لائٹ موڈ میں تھیں، وہ بھی انجوائے کرتے اور میں بھی ان پر قہقہے لگاتا۔ آج اگر میں اپنے گاﺅںجاﺅں تو میرے وہ کلاس فیلو جو، میٹرک سے آگے نہیں بڑھے، وہ لاکھوں کے بینک بیلنس کے مالک ہیں اور مجھے دس تاریخ کے بعد تنخواہ یاد آنے لگتی ہے میرے ہم جولیوں کو کوئی فکر لاحق نہیں، نہ کوئی بجلی، فون اور موبائل کا بل، نہ گروسری خریدنے کی فکر کہ سب کچھ ان کے کھیتوں میں ہے، میں ان کی قسمت پر رشک کرتا ہوں اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ انسان کو ہر حال میں خوش رہنا چاہئے۔ اپنی جدو جہد کرتے رہنا چاہئے، میں نے ایسا ہی ایک کردار افتخار سندھو کی شکل میں دیکھا، انگریز شاعر چاﺅسر انہیں دیکھ لیتا تو ضرور ان کا ذکر اپنے ایپی لاگ میں کرتا مگر لگتا ہے کہ سندھو صاحب کالم کی سرخی پڑھ کر خفا ہو گئے، بات تو خفا ہونے والی تھی ہی، مگر سندھوصاحب کو یہ علم تو نہیں تھا کہ میں ان پر دوسرا کالم بھی لکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا ہے۔
میں سندھو صاحب کو ایک محب وطن شہری سمجھتا ہوں، وہ سچے پاکستانی ہیں، معاشرے میں پائی جانے والی ساری برائیوں کے باوجود ان کا ایمان ہے کہ پاکستان آگے بڑھے گا، ترقی کرے گا، یہ ملک خوش حال ہو گا اور اقوام عالم کے شانہ بشانہ فخر سے سینہ تان کر کھڑا ہو گا۔
یہاںمجھے جنرل محمد جاوید یاد آئے جو کہا کرتے ہیں کہ پاکستان میں بہت پوٹینشل ہے۔ اجمل نیازی نے ایک کالم میں ان کے یہ الفاظ نقل کئے تھے کہ اس ملک پر تولوہے کہ پہاڑوں کی بارش ہوئی تھی۔ دنیا زمین کی گہرائیوں میں لوہا تلاش کرتی ہے، ہمارے ہاں لوہے کے پہاڑ ہیں اتوار کو انہی جنرل محمد جاوید کا فون آیا ، وہ میری گاڑی کے نقصان کا پڑھ کر افسردہ تھے، مگر انہوںنے دلاسا دیا کہ ایسے نقصانات کودل پہ نہیں لگایا کرتے، اللہ کی نعمتوں کومت بھولئے اور خاص طور پراس ملک کو جو نعمتیں میسر ہیں، ان سے عوام کو آگاہ کرتے رہا کریں۔ انہوں نے یہ کہہ کر مجھے ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ چاغی کا علاقہ جنت کا ٹکڑا ہے۔ جنت کا ٹکڑا، میں حیران و ششدر تھا، کیا ہے چاغی کے پہاڑوں میں، جنرل صاحب نے بتایا کہ دنیا کی تمام معدنیات کے نہ ختم ہونے والے ذخائر اس علاقے میں ہیں سونا، چاندی، تانبہ، لوہا اور کیا کچھ نہیں، سب کچھ یہاں دفن ہے، یہ پاکستان کی دولت ہے جو اسے غنی کر دے گی، مالا مال کر دے گی۔ جنرل محمد جاوید نے کہا کہ اس ملک پر اللہ کا سایہ ہے، چار موسم ہیں، سمندر ہیں، دریا ہیں، نہریں ہیں،گلیشیئر ہیں، برفانی چوٹیاں ہیں، لہلہاتی فصلیں ہیں، بنجر علاقے اور ریگستان ہیں، کیا کچھ نہیں، سب کچھ ہے ، یہ ہماری دولت ہے جو ہمیں غریب نہیں ہونے دیتی۔
یہی بات سندھو صاحب نے دوسرے انداز میں کہی تھی کہ ٹھیک ہے لوگ ٹیکس چوری کرتے ہیں، افسر شاہی کرپشن میں لت پت ہے، سیاستدان پانامہ سے لتھڑے ہوئے ہیں، علما فرقوں کے تشدد کا شکار ہیں مگر دل کہتا ہے کہ یہ ملک آگے بڑھے گا، ترقی اس کی قسمت میں لکھ دی گئی ہے وہ نوازشریف کے ہاتھوں ہو یا پرویز الہی کے ہاتھوں یا عمران خاں کے ہاتھوں، یا کوئی مرد غیب سامنے آ جائے، پاکستان نے آگے ہی آگے بڑھنا ہے، اس ملک کے بنانے میں شہدا کا خون شامل ہے، قائداعظم کی ان تھک محنت شامل ہے، اس لئے ہمیں اس کے روشن پہلو پر نظر رکھنی چاہئے میں نے اپنے صحافتی کیریئر کا پہلا کالم میر نبی بخش زہری کی پریس کانفرنس کے حوالے سے لکھا تھا، یہ شاید انیس سو ستر کی بات ہے، وہ پرل کانٹی نینٹل ہوٹل میں آئے تھے، درجن بھر اخبار نویس ان کی بریفنگ میں شریک تھے، اور ہم سب ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے اور وہ بھی بڑے مزے سے کہتے رہے کہ سبز سنگ مر مر کی کانیں ان کی ملکیت ہیں، اقبال کا مزار بنا، قائد کا مزار بنا اور کئی مزار بنے تو انہوں نے پیش کش کی تھی کہ وہ مزار کی تعمیر کے لئے سبز سنگ مر مر عطیہ کرنے کو تیار ہیں، آج تو مجھے یاد نہیں کہ کسی نے ان کی پیش کش قبول کی یا نہیں مگر میں نے وہیں ایک کونے میں قلم کاغذ پکڑا اور کالم گھسیٹ دیا جس کا عنوان تھا: مقبرے بنوا لو۔ اس کا لوگو تھا، سرمحفل میرا یہ کالم ا س دور کے کثیرالاشاعت ہفت روزہ زندگی میں چھپا، اس بے ربط کالم کی اشاعت پر میرے دل میں آس پیدا ہوئی تھی کہ میںکالم لکھ سکتا ہوں، اب پتہ نہیں کیوں، پچاس سال بعد ایک اور بے ربط کالم لکھنے پر سندھو صاحب کو ناراض کر بیٹھا ہوں حالانکہ میر نبی بخش زہری ساری عمر میرے دوست رہے تھے ۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن