اسلام آباد (نامہ نگار) پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی نے ملک کی اکثریتی آبادی کے ناخواندہ ہونے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔کمیٹی نے تعلیم کے شعبے کے انڈومنٹ فنڈ کی سرمایہ کاری نہ ہونے کے معاملے کی تیس روز میں رپورٹ طلب کرلی ہے، وزارت کے حکام بچوں کے سکولوں سے ڈراپ آئوٹ تناسب کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ پھر آپ یہاں کیا لینے آتے ہیں اب بریفنگ کے لئے ایف بی آئی سربراہ کو بلائوں کہ وہ خود آکر پی اے سی میں بیٹھیں۔ کمیٹی نے تمام صوبوں بشمول آزاد کشمیر‘ فاٹا‘ گلگت بلتستان میں موجود سکولوں کی فہرست پیش کرنے کی ہدایت کردی ہے۔کمیٹی چیئرمین سید خورشید شاہ نے وزارت تعلیم کے افسران کو بھی لاجواب کردیا‘ وزارت تعلیم والے غلط اعداد و شمار بتا رہے ہیں‘ کمیٹی رکن شفقت محمود نے وزارت حکام سے خواندگی کی تعریف پوچھی تو وزارت حکام جواب نہ دے سکے‘ کمیٹی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزارت کے حکام کے پاس معلومات نہیں ہیں آخر کس کے پاس ہوں گی۔ پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سید خورشید شاہ کی صدارت میں ہوا۔ اجلاس میں وزارت وفاقی تعلیم کے مالی سال 2016-17 پر آڈٹ اعتراضات سمیت بجٹ گرانٹ کا بھی جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں سیکرٹری وزارت تعلیم نے وزارت کی کارکردگی کے حوالے سے بریفنگ بھی دی۔ بنیادی کمیونٹی تعلیم کے ڈائریکٹوریٹ جنرل کی کارکردگی کے حوالے سے بھی اجلاس کو بریفنگ دی گئی۔ آڈٹ حکام نے کمیٹی میں انکشاف کیا کہ انڈومنٹ فنڈ کی سرمایہ کاری نہ ہونے کی وجہ سے قومی خزانے کو پانچ کروڑ ستر لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔ آڈٹ حکام نے کہا کہ اس پر وزارت کو ذمہ داروں کا تعین کرنا چاہئے سیکرٹری وفاقی تعلیم نے کمیٹی کو بتایا کہ پیسہ کی سرمایہ کاری نیشنل بنک آف پاکستان میں کی گئی۔ گلگت بلتستان کی حکومت نے کہا کہ یہ سکول ہمیں دیئے جائیں مگر انڈومنٹ فنڈ جو کہ این بی پی میں تھا اس کی طرف کسی کا دھیان نہیں گیا۔ چیئرمین کمیٹی سید خورشید شاہ نے کہا کہ حکومتی پیسہ ہے اس میں بھول کرنے والوں کا تعین ہونا چاہئے پانچ کروڑ کا نقصان کسی کی نالائقی کی وجہ سے ہوا ہے اس کو سزا ملنی چاہئے۔ ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ دو آدمیوں کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا ان کی تنخواہیں بھی شامل کرلیں تو بھی نقصان پورا نہیں ہوسکتا۔ خورشید شاہ نے کہا کہ اعداد و شمار مجھ سے پوچھیں بی اے تک صرف بارہ فیصد بچے جاتے ہیں میٹرک کے بعد 38 فیصد بچے تعلیم چھوڑ دیتے ہیں سال میں 800 گھنٹے ایک بچے کے پڑھنے کا عالمی معیار ہے بدقسمتی سے ہمارے دیہاتوں کے بچے 150 گھنٹے پڑھتے ہیں کسی بھی حکومت نے تعلیم پر توجہ نہیں دی۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ایک ٹیچر 90 بچوں کیلئے ہے سیکرٹری تعلیم نے کہا کہ 39 بچوں پر ایک ٹیچر ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ حکومت سے اگر یہی غلط بیانی کی جائے گی تو بجٹ کیسے ملے گا ڈی جی بی ای سی ایس نے بتایا کہ چٹائیوں پر بچوں کو بٹھا کر پڑھاتے ہیں جن کو ہم پڑھاتے ہیں وہ غریب ہیں جہاں بجلی اور پانی نہیں ہوتا ہمیں کتابوں کے لئے بجٹ ہی نہیں ملا ۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا اس سال بچوں کو کتابیں ابھی تک نہیں پہنچیں وزارت حکام نے بتایا کہ منصوبہ بندی کمیشن کی جانب سے وقت پر فنڈز کیسے ملتے جو فنڈز ہمیں ملتے تھے وہ بھی کاٹ لئے گئے ہیں۔