مسئلہ کشمیر کے کچھ نئے پہلو

برصغیر سے انگریز سامراج کے خاتمے اور پاکستان و ہندوستان کے وجود میں آنے کے وقت 1947ء میں ریاست جموں و کشمیر چار صوبوں یا خطوں پر مشتمل تھی۔ جموں‘ کشمیر‘ لداخ اور گلگت بلتستان‘ مہاراجہ کشمیر کی مسلم دشمنی اور بھارت کی طرف جھکائو کی وجہ سے جب 1947ء میں کشمیری عوام نے بغاوت کی تو گلگت بلتستان اور آزادکشمیر سے مہاراجہ کی فوج کو بھاگنا پڑا۔ اس موقع پر بھارت نے مہاراجہ کشمیر کو نہایت چالاکی کے ساتھ بھارت سے الحاق پر مجبور کیا۔ اب یہ الحاق ہوا یا نہیں ہوا‘ اس پر دو آراء ہیں مگر مہاراجہ کی مرضی یا نیم رضامندی کو ہاں سمجھ کر بھارت نے اپنی فوجیں کشمیر میں داخل کر دیں اور یوں یہ ریاست دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ ایک حصہ بھارت کے قبضہ میں آیا جو کشمیر‘ جموں اور لداخ پر مشتمل ہے تودوسرا گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کی شکل میں پاکستان کے پاس ہے۔ معاہدہ کراچی کے تحت حکومت آزادکشمیر نے گلگت بلتستان کے وسیع علاقے کا کنٹرول سنبھالنے اور چلانے سے معذوری ظاہر کرتے ہوئے اسے (عارضی طورپر) پاکستان کے سپرد کر دیا۔ یوں صرف آزادکشمیر کی مختصر سی ناتواں ریاست پر تحریک آزادی کشمیر کا بوجھ پڑا۔ اس میں بھی وہ ناقص سیاسی قیادت کی وجہ سے مفادات کی اسیر ہوکرناکام ٹھہری۔ یہ کہانی پھر سہی۔ بھارت کے زیرقبضہ مقبوضہ کشمیر جموں اور لداخ میں بھی اس قسم کی کہانی دہرائی گئی۔ لداخ کو عملاً ریاست کشمیر سے علیحدہ کرکے مرکزی حکومت کی عملداری میں دیدیا گیا۔ وہاں بس نام کی حد تک ریاست جموں و کشمیر کی عملداری تھی ۔ خاص کر لداخ کے وسیع صوبے میں مرکزی حکومت یعنی دہلی سرکار کی ہی چلتی تھی۔ جموں میں 1947ء کے مسلم کش فسادات اور وہاں کی اکثریتی مسلم آبادی کا قتل عام اور صفایا کرکے اسے ہندوئوں کا اکثریتی صوبہ بنایا جا چکا ہے۔ لداخ میں بدھ مت ماننے والوں کو ذہنی طورپر کشمیر سے الگ ایک شناخت اور علاقہ کا سبق ازبر کرایا جا چکا ہے۔ یوں صوبہ کشمیر کو مکمل طورپر یک و تنہا کرنے کی پالیسی گزشتہ 70 برسوں سے بھارت نے نہایت مہارت سے چلائی۔ ایسا ہی کچھ گلگت و بلتستان میں بھی دانستہ یا نادانستہ کیا گیا۔ وہاں کے عوام اب ذہنی طورپر خود کو کشمیر اور مسئلہ کشمیر سے علیحدہ کر چکے ہیں۔ عملی طورپر وہاں اب پاکستانی صوبہ یا پاکستان کا پانچواں صوبہ وجود میں آچکا ہے۔ لداخ والے بھی بھارتی صوبے کے اسیر ہو چکے ہیں۔ مذہبی شدت پسندی کے عروج کی وجہ سے جموں کے ہندو بھی بھارت سرکار کے ساتھ وابستگی پر مطمئن ہیں۔ جموں اور لداخ بھارتی اور گلگت بلتستان پاکستانی صوبہ بن چکے ہیں۔ ان تینوں صوبوں میں آباد لوگ ذہنی طورپر مسئلہ کشمیر یا تحریک آزادی کے حوالے سے خود کو علیحدہ کر چکے ہیں۔ بہت کم یہاں کے باسی اب خود کو کشمیری کہہ کر تحریک آزادی کشمیر میں عملی طورپر سرگرم ہیں یقین نہ آئے تو تحریک آزادی 1989ء تا 2019ء کنگھال کر دیکھ لیں۔ حالانکہ یہ سب ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہیں مگر اب علیحدہ شناخت پر بضد ہیں یا کر دیئے گئے ہیں۔ قوم پرستی اور مذہبی تعصب نے انہیں علیحدہ سوچ کا پابند کر دیا۔ان حالات میںصرف وادی کشمیر اور آزاد کشمیر میں کشمیریت اور کشمیر کی تحریک آزادی کے حوالے سے ایک واضح اور ٹھوس طرز فکر سامنے آتا ہے۔ جو تحریک آزادی کشمیر کو تب تاب جاداں بنائے ہوئے ہے۔ بھارت سے علیحدگی یا آزادی کی تحریک کا مرکز و محور مقبوضہ اور آزاد کشمیر ہے۔ کیا اب پاکستان حکمران‘ حریت کانفرنس کی دونوں طرف کی قیادت اور دیگر سیاسی جماعتیں اس طرز فکر پر نئے زاوئیے سے غور کرنے کی ہمت کر سکیں گے۔ یا شترمرغ کی طرح ریت میں گردن دبائے رہیں گے۔ کوئی مانے یا نہ مانے لداخ جموں و بھارتی یونین کاعملاً حصہ بن چکے ہیں۔ گلگت بلتستان کی شکل میں پاکستان کا پانچواں صوبہ عملاً وجود میں آ چکا ہے۔ اب صرف ان کے حوالے سے قانونی اور آئینی موشگافیاں ہو رہی ہیں۔ اس صورتحال میں کیا اب 1948-47ء کی اقوام متحدہ کی قراردادوں پر کوئی بھی ملک عمل کرنے کو تیار ہو گا یا خود اقوام متحدہ ان ممالک سے اپنی قراردادوں پر عمل کروا سکے گی۔ ان حالات میں صرف اور صرف ریاست جموں و کشمیر میں رائے شماری کا جواز رہ جاتا ہے۔ کیا اس پہلو پر کوئی بات کرسکتا ہے کوئی بات ہو سکتی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے حکمرانوں کے دونوں ممالک کو سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کو عسکری قوتوں کو حریت قیادت کو اس طرف بھی توجہ دینا ہو گی تاکہ مسئلہ کشمیر کا حقیقت میں موجودہ حالات کے مطابق حل نکل سکے ورنہ ریاست کشمیر میں کشمیریوں کی نسل کشی اسی طرح جاری رہی تو اسے کچھ عرصہ بعد بھارت اسے ہندو اکثریتی ریاست بنانے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ میں 35-A کے خلاف کیس کی سماعت شروع ہو چکی۔ وہ جلدہی اس کی حیثیت تبدیل کر دے گی۔ جس طرح اسرائیل نے یہودی بستیاں بسا کر ارض فلسطین پر قبضہ مکمل کیا‘ اسی طرح بھارت بھی ریاست کشمیر میں ہندو بستیاں بسا کر اس کی مسلم حیثیت کردے گا۔
میں دکھے دل کی صدا ہوں ناداں
میری باتوں کو سمجھ تلخی تقریر نہ دیکھ
اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ وہ وقت آنے سے قبل ہی پاکستان اور کشمیریوں کو مل جل کر اس کا کوئی حل نکالنا ہوگا ورنہ بعد میں کچھ ہاتھ نہ آسکے گا۔

ای پیپر دی نیشن