نواز رضا
عمران خان کی حکومت قائم ہوئے 6 ماہ سے زائد عرصہ ہونے کو ہے لیکن بد قسمتی سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ’’خوشگوار‘‘ تعلقات کار قائم نہیں ہو سکے۔ خوشگوار تعلقات کار قائم کرنے میں کبھی وفاقی حکومت میں بیٹھے ’’عقاب صفت‘‘ وزراء حائل ہو جاتے ہیں اور کبھی ’’بقراطِ عصر‘‘ جیسے ’’دانشور‘‘ اپوزیشن کے خلاف نیا محاذ کھول کر پارلیمنٹ کے ایوانوں میں ’’آگ‘‘ لگانے کا باعث بنتے ہیں۔ ایسا دکھائی دیتا ہے حکومت اوراپوزیشن کو بند گلی میں دھکیلنے کی شعوری کو ششیں کی جارہی ہیں ۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ‘ میاں شہباز شریف کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ سے ہٹانے کا نیا محاذ کھولنے کی تیاری کر رہے ہیں۔خدا خدا کر کے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے تحریک انصاف کے ’’عقاب صفت ‘‘رہنمائوں کی مخالفت مول لے کر وزیراعظم عمران خان کو میاں شہباز شریف کو چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی بنانے پر آمادہ کیا تھا ۔ یہ معاملہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں میاں شہباز شریف کی چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی کی حیثیت سے ’’سرگرمیوں‘‘ پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے ۔ وفاقی کابینہ کے بیشتر ارکان نے اسے غلط فیصلہ قرار دیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد حسین چوہدری نے میاں شہباز شریف کو ’’اخلاقیات‘‘ کا درس دیا اور کہا کہ وہ پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ سے خود ہی الگ ہو جائیں بصورت دیگر ان کو اس منصب سے ہٹانے کے لئے ’’ووٹ آئوٹ‘‘ کا ہتھیار ان کے پاس موجود ہے۔ وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد تو ویسے بھی سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں کیونکہ انہوں نے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے شیخ رشید احمد کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کا رکن بنانے کے خط کو نظر انداز کر دیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ رشید احمد نے قومی اسمبلی کے سپیکر کے خلاف بھی محاذ کھول لیا ہے۔ سپیکر نے تمام پارلیمانی جماعتوں کے قائدین پر مشتمل خصوصی کمیٹی قائم کر کے وزیراعظم عمران خان ،اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف اور آصف علی زرداری کے ایک میز پر بیٹھنے کا اہتمام کر دیا ہے لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے کہ موجودہ حالات میں سپیکر قومی اسمبلی کے لئے آزادانہ طور پر کام کرنا مشکل بنا دیا گیا ہے۔ قومی اسمبلی کا آٹھواں سیشن 18 فروری 2019 کو ہو رہا ہے۔ سپیکر نے قومی اسمبلی کی بیشتر مجالس قائمہ کا انتخاب مکمل کر لیا ہے لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے کہ چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی میاں شہباز شریف کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائے جانے کے بعد پوری اپوزیشن مجالس قائمہ سے مستعفی ہو جائے گی۔ اپوزیشن بھی حکومتی طرز عمل کے سامنے ڈٹ گئی ہے۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، ایم ایم اے اور اے این پی نے حکومت کے ’’سیاسی ایڈونچر‘‘ کے سامنے کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ تحریک انصاف کے ’’ہاکس‘‘ سپیکر قومی اسمبلی کی ’’صلح جو ‘‘پالیسی سے خوش نہیں۔ سپیکر ملکی پارلیمانی تاریخ کی سب سے بڑی اپوزیشن سے صلح اور مفاہمت سے پارلیمنٹ چلانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے حکومت کو باور کرا دیا ہے کہ ہنگامہ آرائی پارلیمنٹ کا مقدر بن گئی تو یہ نظام زیادہ دیر تک نہیں چلے گا۔بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) میاں شہباز شریف کو چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سے ہٹانے کی حکومتی تحریک کی حمایت نہیں کرے گی۔پاکستان پیپلز پارٹی کھل کر اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کے شانہ بشانہ کھڑی ہو گئی ہے۔ سید خورشید شاہ نے حکومت کو انتباہ کیا ہے کہ اگر شہباز شریف کو پبلک اکا ئو نٹس کمیٹی کی چیرمین شپ سے ہٹایا گیا تو اسمبلی نہیں چلنے دیں گے، پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو چیرمین پی اے سی سے ہٹانے کے’’ ممکنہ ‘‘حکومتی اقدام کے خلاف سخت ردعمل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے صرف سپیکر، شاہ محمود قریشی اور پرویز خٹک کی وجہ سے پارلیمنٹ کو چلانے کی کوشش کی ہے لیکن پارلیمنٹ کو بے توقیر طریقے سے چلانے نہیں دیں گے‘‘۔ وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کا رکن بنانے سے بھی انکار کر دیا ہے ۔ پارلیمانی حلقوں میں کہا جا رہا ہے وفاقی حکومت چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی میاں شہباز شریف کی پارلیمنٹ کے اندر سرگرمیوں’’ قدغن‘‘ لگانے کے لئے دبائو بڑھا رہی ہے سپیکر نے میاں شہباز شریف کی درخواست پر ان کی اطلاعات و نشریات ، قانون و انصاف اور امور کشمیر کی مجالس قائمہ کی رکنیت ختم کر دی ہے باور کیا جاتا ہے حکومت میاں شہباز شریف کی ان کمیٹیوں کی رکنیت کی وجہ سے پارلیمنٹ میں موجودگی کو برداشت نہیں کر رہی ۔ حکومت میاں شہباز شریف کی سرگرمیوں سے پریشان ہے میاں شہباز شریف کا زیادہ وقت پارلیمنٹ ہائوس میں رہنا اپوزیشن کو متحد رکھنے میں معاون ثابت ہو رہا تھا اس لئے وزیر اعظم عمران خان نے اپنے فیصلے پر ’’یوٹرن‘‘ لینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ سیاسی حلقوں میں یہ افواہ گشت کر رہی تھی کہ میاں نواز شریف کو سیاسی منظر سے ہٹ جانے کے لئے دبائو ڈالا جا رہا ہے لیکن میاں نواز شریف نے ’’سودے بازی ‘‘ کر کے باہر رہنے کی بجائے کوٹ لکھپت جیل میں قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کر نے کے لئے تیار ہیں ۔ میاں نواز شریف کے دوبارہ کوٹ لکھپت جیل جانے اور میاں شہباز شریف کے خلاف فرد جرم عائد کرنے کی تیاریاں ان کے ’’ڈیل‘‘، ڈھیل یا این آر او کے تحت ان کے بیرونِ ملک جانے کی افواہیں دم توڑ گئی ہیں ۔ وزیر اعظم عمران خان سمیت ہر حکومتی عہدیدار میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کو این آر نہ دینے کا بار بار اس طرح ذکر کرتے ہیں جیسے انہوں نے’’ این آراو ‘‘ کی بھیک مانگی ہے ۔ زمینی حقائق سے یہ نظر آتا ہے میاں نواز شریف اور مریم نواز آئندہ چند دنوں میں ملک سے باہر نہیں جائیں گے ممکن ہے میاں نواز شریف کو بیرون ملک علاج جانے کی اجازت مل جائے لیکن میاں نواز شریف کسی صورت بھی ’’سیاسی میدان ‘‘ اپنے مخالفین کے لئے کھلا نہیں چھوڑیں گے یہ ایک سیاسی حقیقت ہے ان کی صاحبزادی مریم نواز نے جس بہادری اور جرات سے نواز شریف جیل کاٹ لی ہے محترمہ بے نظیر بھٹو کے بعد ان کے حصہ میں آیا ہے مریم نواز نے اپنے آپ کو میاں نواز شریف کا اہل سیاسی جانشین ثابت کر دیا ہے۔ ملکی سیاست سے میاں نواز شریف ، میاں شہباز شریف ، مریم نواز اور حمزہ شہباز کو نکالنے کی کوئی کوشش ’’سیاسی عدم استحکام ‘‘کا باعث بن سکتی ہے اور نہ ہی پاکستان کے عوام کی مرضی و منشا کے خلاف کسی اقدام کو قبولیت حاصل ہو گی ۔