نیب آرڈیننس میں ترمیم غیر ضروری، گرفتاری ملزم کی تضحیک، چیئرمین کے اختیار پر تفصیلی فیصلہ دینگے: چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد (وقائع نگار) ہائی کورٹ نے نیب کو احسن اقبال کے خلاف ٹھوس شواہد اور گرفتاری کی وجوہات بتانے کی مہلت دیتے ہوئے ضمانت کی درخواست پر سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کر دی۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے نیب آرڈیننس میں ترمیم غیرضروری ہے۔ بلا جواز گرفتاری ملزم کی تضحیک اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ چیئرمین نیب کے گرفتاری کے اختیار پر تفصیلی فیصلہ جاری کریں گے، اس اختیار کی وضاحت کرنا ہو گی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے نارووال سپورٹس سٹی پراجیکٹ میں گرفتار سابق وفاقی وزیر احسن اقبال کی ضمانت کی درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ احسن اقبال پر کرپشن یا مالی فوائد اٹھانے کا کوئی الزام نہیں، احسن اقبال پر رشوت، گفٹ، بے نامی جائیداد، آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس نہیں۔ اختیارات کے غلط استعمال کا الزام ہے۔ پہلے غیر قانونی بھرتیوں یا کنٹریکٹ دینے پر ریفرنس بنا دیا جاتا تھا، اب نیب کا ترمیمی آرڈی نینس آ گیا ہے جس کے تحت یہ بتانا ضروری ہے کہ ملزم نے کیا مالی فائدہ اٹھایا؟ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے یہ تو طے شدہ قانون ہے، اس کے لیے نیب آرڈی نینس میں ترمیم کی کیا ضرورت تھی؟ اگر احسن اقبال تفتیش میں تعاون کر رہے تھے تو ان کی گرفتاری کی کیا وجہ بنی؟ کیا احسن اقبال کو گرفتار کیے بغیر انکوائری مکمل نہیں ہو سکتی تھی؟ جب آپ کسی کو گرفتار کرتے ہیں تو اس کی عزت اور وقار پر حرف آتا ہے۔ جرم ثابت ہونے تک ملزم بیگناہ ہوتا ہے، گرفتاری سے شہری کی آزادی اور عزت نفس مجروح ہوتی ہے۔ نیب کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے کہا احسن اقبال کی گرفتاری کا حکم مجاز اتھارٹی نے دیا جوچیئرمین نیب ہیں۔ یہ صوبائی منصوبہ تھا جس کے لیے وفاق سے فنڈز جاری کیے گئے۔ گواہوں پر اثر انداز ہونے ، بیرون ریکارڈ فرار اور ریکارڈکی ٹیمپرنگ کے خدشات کے پیش نظر احسن اقبال کی گرفتاری کا آرڈر جاری کیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کیا وزارت کا ریکارڈ اب بھی احسن اقبال کے پاس ہے ؟ وہ ریکارڈ میں کیسے ٹیمپرنگ کر سکتے ہیں؟ بیرون ملک فرار کے خدشے پر نام ای سی ایل میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ کیا نیب تفتیشی اتنی صلاحیت نہیں رکھتا تھا کہ احسن اقبال کو بنیادی حقوق سے محروم کئے بغیر تفتیش مکمل کرتا ؟ کیوں نہ نیب کی جانب سے بلاجواز گرفتاری کو غلط قرار دیا جائے۔دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا گیا ہے کہ ایل این جی ریفرنس میں گرفتار سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو جیل کے ڈیتھ سیل میں رکھا گیا ہے۔ توانائی بحران پر قابو پانے کے لیے ایل این جی کی درآمد کا فیصلہ ہوا۔ پراجیکٹ پر حکومت کا ایک پیسہ نہیں خرچ نہیں ہوا لگا بلکہ ہر شپمنٹ پر پیسہ ملتا ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے اگر پراجیکٹ میں کرپشن تھی تو موجودہ حکومت نے اس پر نظرثانی کیوں نہیں کی؟ کسی کو گرفتار کر کے تذلیل کرتے ہیں اس کا کون ذمہ دار ہے ؟ کیا لوگوں کو گرفتار کرنے سے کرپشن ختم ہو جائے گی؟۔ درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ شاہد خاقان عباسی کو حراست میں 205 دن ہو گئے ہیں، انہیں جیل میں ڈیتھ سیل میں رکھا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے پوچھا ایسا کیوں ہے ؟ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ وہ جوڈیشل کسٹڈی میں ہیں اس میں نیب کا کوئی کردار نہیں۔ چیف جسٹس نے نیب حکام سے استفسار کیا کہ کیا یہ بات درست ہے ؟ کیا اس پراجیکٹ میں توسیع گزشتہ شرائط کے مطابق ہی ہوئی؟ اگر ایسا ہے تو کرپشن کی وجہ سے پراجیکٹ پر نظرثانی کیوں نہیں کی گئی؟ اس متعلق ریکارڈ پیش کریں۔ ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب جہانزیب بھروانہ نے کہا ایل این جی کا عبوری ریفرنس احتساب عدالت میں دائر کیا جا چکا ہے، شاہد خاقان عباسی کا بنکنگ ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ اکٹھا کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کیا ملزم اعتراف جرم کرے گا تو آپ اس جواب سے مطمئن ہوں گے؟ آپ جو کسی کو گرفتار کرکے تذلیل کرتے ہیں اس کا کون ذمہ دار ہے؟ کیا لوگوں کو گرفتار کرنے سے کرپشن ختم ہو جائے گی؟۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...