اسلام آباد /سہیل عبدالناصر/ پاکستان اور ترکی کے دو طرفہ تعلقات بلاشبہ، اخوت اور اپنائیت کے رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں لیکن جدید ریاستوں میں محض جذباتی تعلقات کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ تمام تر گرمجوشی کے باوجود، دونوں ملک، تجارت و معیشت ، سائنس و ٹیکنالوجی، دفاع و دفاعی پیداوار، تعلیم اور انسداد دہشت گردی سمیت دو طرفہ تعلقات کے اہم شعبوں میں بامقصد ، پائیدار تعاون کی داغ بیل نہیں ڈال سکے۔ اگرچہ دونوں ملکوں کی مشترکہ سٹریٹجک کونسل بھی موجود ہے، اس کونسل کے تحت اب تک ساٹھ سے زائد دو طرفہ معاہدے اور مفاہمت کی یادداشتیں طے پا چکی ہیں لیکن دو طرفہ تجارت کا حجم محض نو سو ملین ڈالر ہے جسے دونوں ملک 2022 تک دس ارب ڈالر تک لے جانا چاہتے ہیں۔ یہ تجارتی حجم اور آئندہ ہدف، دونوں ہی ، پاکستان اور ترکی کے شاندار تعلقات کا مظہر نہیں ہیں۔ ایک طرف پاکستان اور ترکی کے تاریخی تعلقات ہیں تو دوسری جانب رجب طیب اردگان بھی پاکستان سے خاص تعلق محسوس کرتے ہیں۔ ساڑھے تین برس پہلے ان کے خلاف فوجی بغاوت کے دوران ہی اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے ان کے ساتھ نہ صرف بھرپور یکجتہی کا اطہا رکیا بلکہ خود ترکی بھی جا پہنچے۔پاکستان کی عدالتوں نے اردگان کے سب سے بڑے حریف فتح اللہ گولن کی تنظیم کو دہشت گرد قرار دے کر پاک ترک سکول، ترک حکومت کے سپرد کرنے کا حکم دیا۔ پاکستان نے ان سکولوں کے پہلے عملہ کو ویزوں میں توسیع نہیں دی۔ اور سکولوں کا مکمل انتظام ، ترک حکومت کو سونپ دیا۔ عالمی اور علاقائی فورمز پر بھی پاکستان اور ترکی اہم اتحادی ہیں۔ کم لوگ جانتے ہیں کہ اسرائیل کے علاوہ آرمینیا ابھی ایک ایسا ملک ہے جسے پاکستان سفارتی طور پر تسلیم نہیں کرتا۔ ترکی اور آذربائجان کی محبت میں پاکستان نگورنو کاراباخ کو آرمینیا کا حصہ بھی نہیں مانتا۔ مضبوط معیشت کے حامل ترکی نے اب ، پاکستان میں سرمایہ کاری قدرے بڑھائی ہے۔ اس سرمایہ کاری نے اب ایک ارب ڈا لرکا ہدف عبور کیا ۔ چین کے بعد ، ترکی دوسرا ملک ہے جسے اب اپنی دفاعی پیداوار کی مصبوعات کیلئے ایک بڑی مارکیت میسر آئی ہے۔ پاکستان ، پہلے سے ایف سولہ طیاروں کی اپ گریڈیشن ترکی سے کروا رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں ترکی نے پاکستان کی اگستا آبدوزوں کو اپ گریڈکرنے کا ٹھیکہ بھی حاصل کیا۔ آرمی ایوی ایشن کیلئے نئے اٹیک ہیلی کاپٹر بھی ترکی ہی فراہم کرے گا۔ ترکی بھی چین کی طرح ایک ایساملک ہے جس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات، سلامتی اور خارجہ پالیسی تک محدود رہے ہیں۔ معاشی راہداری نے تو پاک چین تعلقات کی سمت کو تبدیل کرنے مین اہم کردار ادا کیا ہے، دیکھئے، ترکی اور پاکستان کے تعلقات کب معاشی بنیادوں پر استوار ہوتے ہیں۔
تمام ترگرمجوشی کے باوجود پاکستان اورترکی پائیدارتعاون کی داغ بیل نہیں ڈال سکے
Feb 14, 2020