14فروی ویلنٹائن ڈے… آئوقبیح رسم ختم کریں

ویلنٹائن ڈے ہر سال فرانس، جرمنی،کینڈا ،شمالی کوریہ،ماسکو،برطانیہ سمیت دنیا بھر میں انعقاد پذیر ہوتا ہے جس کا تعین فروری کی 14 کو کیا جاتاہے جس کی بنیاد انھوں نے محبت و عشق سے منسوب کی ہے تاکہ دو لوگ اپنے دل میں ایک سال سے دفن ایک راز کو عوام الناس کے سامنے پیش کر کے متعلقہ شخص تک اپنی فر یاد کو پہنچا سکے اور سامنے والا شخص بھی اس موصوف کی فریاد سن کر لبیک کہہ اٹھے جس پر دو کے درمیان پھولوں اور تحفے تحائف کا تبادلہ ہوتا ہے۔اس کے بعد وہ اعلانیہ طور پر رسم محبت کو نبھانے کے مرتکب قرار دیے جاتے ہیں۔دیکھا دیکھی بد قسمتی سے ہمارے محبوب وطن کے شہری بھی پیش پیش رہی ہے۔ لوگوں نے اس عمل کو بصورت احسن طریقے سے نبھانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے۔جس میں کڑی کوشش ہمارے نوجوان طبقہ کی ہے۔افسوس ! نوجوان نسل غیر کے غیر مستحکم اور غیر فعال کردار و گفتار کے رنگ میں رنگی گئی ہے۔ ہم نے نقش غیر کو اپنا رہنما بنا لیا۔ نوجوان نسل اپنی تاریخ کے گوشوں سے ہمہ تن شناسائی نہیں رکھتی۔ کیا ہم نے اپنے اسلاف کو اپنایا ہے یا مغرب کا طرز زندگی اختیار کیا ہے ۔ہمارے تمدن اور کلچر میں کتنی مماثلت مغرب کی نظر آ تی ہے۔ ہم نے حقوق نسواں کی جنگ کی آ ڑ میں اپنی عورتوں کو با وقار اور مضبوط بنانے کی بجائے کتنا کمزور کر دیا۔ معاشرے نے ان کو حقوق دینے کی بجائے تمام حقوق چھین لیے ہیں…ہم نے عورت کو تحفظ دینے کی بجائے اس کی سر کی ردا بھی اس سے چھین لی ۔جو عورت کے وقار ،عفت و آ برو کی علامت تھی۔ آج عورت برہنہ سر بازار کی زینت بن گئی ۔تم کس ترقی یافتہ معاشرے کی بات کرتے ہو ، ہاں مغرب کی بات کرتے ہو جس میں عورت آ زاد ہے ۔تم قرآن کریم کی بات کیوں نہیں کرتے ہو سورہ نسائ، میں عورت کو تمام کے تمام حقوق دیے جس کی وہ مستحق ہے۔اسلام نے عورت کو کچھ حدوں میں رہنے کا حکم دیا ہے اور ساتھ پردے کا حکم بھی دیا ہے۔ مگر معاشرے میں جدید رجحانات تعلیم اور ٹیکنالوجی نے کچھ ہماری معاشرتی اقدار کو بھی پامال کر دیا ہے۔بسنت اور ویلنٹائن ڈے کے حوالہ سے اوباش طبقہ کا کردار سیکولر سوچ کی عکاسی کرتا ہے کیونکہ یہ تہوار دراصل اسی طبقہ کے لوگ مناتے ہیں جب کہ ان من چلوں کی تائید کے لئے سیکولر طبقہ نام نہاد دانشوری پر اتر آتا ہے۔ مزید برآں مغربی تہذیب کی دلدادہ این جی اوز اسلام کے خلاف سازش کے طور پر ان کے ساتھ نہ صرف شریک ہوتی ہیں بلکہ ان کی تفریح میں لہوولعب اور شور وغل کو مہمیز دیتی ہیں تاکہ ایسی تفریح کے پردہ میں غیر اسلامی کلچر کو پروان چڑھانے کے مواقع پیدا کئے جاسکیں۔
یہ طبقہ کن لوگوں پر مشتمل ہے؟ اور یہ تہوار کس ’شان و شوکت‘ سے منایا جاتا ہے؟ اس کا مشاہدہ تو بسنت کے شب و روز میں لاہور اور دیگر بڑے شہروں کی پررونق عمارتوں ‘ پرکیا جاسکتا ہے جبکہ اس کا دھندلا سا عکس کچھ چینلز پر بھی دکھائی دیتا ہے۔مذکورہ تہوار منانے والا اصل طبقہ تو یہی ہے اور یہ کبھی نہیں چاہے گا کہ کوئی ان کی دلربائی میں رکاوٹ بنے۔ انہیں اپنے تہوار کے لئے چند دن ہی درکار ہیں، اس کے علاوہ باقی سارا سال پتنگ بازی پر پابندی رہے، اس سے انہیں کوئی غرض نہیں لیکن ان کی تفریح کے خاص دنوں کوپھیکا کرنے کی کوئی کوشش ہو تو یہ فورا ً حق ِآزادی، تفریح ِطبع وغیرہ کا وِرد کرنے لگتے ہیں اور کئی گروپ بھی ان کی ہم نوائی میں خم ٹھونک کر کھڑا ہوجاتا ہے جبکہ ’سرکار‘ کے لئے پہلے ہی خوشی کے چند لمحات محفوظ کردیئے جاتے ہیں، اس لئے ان کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز اور ان کی طرف بڑھنے والا ہر قدم روک دیا جاتاہے لہٰذاانہی کا پلڑا بالآخر بھاری ثابت ہوتا ہے۔بسنت چونکہ ہندو معاشرے کا مزہبی تہوار ہے ۔ہندو مزہب کے مطابق اس رسم کو ادا کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہندو مذہب کا تہوار ہمارے معاشرے میں بھی پروان چڑھنے لگا جس کا نام جشن بہاراں کے نام سے منسوب کیا گیا تھا۔ماضی میں اس جشن کو پوری آ ب و تاب سے منایا جاتا رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں سنگین نقصانات سے رو چار ہونا پڑا۔ کتنے بے گناہ شہریوں کی جانیں چلی گئیں۔ کتنے معصوم بچوں کی گردن سے پتنگ کی ڈور گزر کر خون میں لت پت کر گئی مگر بھر بھی بے حسِ معا شرہ اس فعل سے باز نہ آیا ۔جبکہ عوامی دباؤ کی وجہ سے حکومت نے اس پر مکمل پابندی عائد کردی تھی ۔بھر سے کچھ سیکولر طبقے نے اس پابندی کے خلاف کمپین چلائی مگر تاحال وہ پابندی عائد تو ہے مگر سو فیصد خاتمہ نہیں ہو سکا۔حکومت اس قانونی فیصلے کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کرے۔ تاکہ اس برائی کا جڑ سے خا تمہ یقینی بنایا جا سکے۔ جتنا تذکرہ اور چرچا ہمارے ہاں ان منفی رجحانات کے حامل مغربی طرز کے تہواروں پر کیا جا تاہے اس سے بڑھ کر ہمیں اپنی اصلاح کی ضرورت ہے۔ہمارا مشرقی معاشرہ ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم ویلنٹائن ڈے 14 فروری کو رسمی اور رسمی طور پر کسی بھی طرز کی کوئی تقریب ہو۔ہمیں اپنی قوم اور معاشرے کی اصلاح کے لیے شرم و حیا کی اہمیت و افادیت پر سیمنار کا انعقاد کرنا چاہیے۔ چادر اور چار دیواری کی فضیلت کواجاگر کرنا ہوگا تا کہ دنیا کے سامنے بحیثیت مسلمان قوم اپنا تشخص قائم رکھ سکیں۔تعلیم ہمیں اندھیرے سے نکال کر روشنی کی طرف لے آ تی ہے نا کہ ہم باطل کے اندھیرے سے اپنے چراغ بھی بجھا دیں۔

ای پیپر دی نیشن