حج پالیسی …ایک پہلو یہ بھی ہے

Feb 14, 2020

امتیاز عاصی

وزار ت مذہبی امور نے نئی حج پالیسی کا اعلان کر دیا ہے اگرچہ حج پالیسی کے چیدہ چیدہ نقاط پ پہلے ہی کئی بار شائع ہو چکے تھے ۔البتہ یہ بات قابل تحسین ہے کہ کم ازکم حج واجبات کم ہوئے ہیں۔کیونکہ حج واجبات میں اضافے کی خبروں کے بعد قائمہ کمیٹیوں اور حجاج کی بہبود کی تنظمیوں کی طرف سے خاصی تنقید ہو رہی تھی ہمیں حج کے انتظامات پر لکھتے ہوئے کم ازکم تیس برس ہوچکے ہیں اس دوران کئی حکومتیں آتی جاتی رہی ۔ لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ وزارت مذہبی امورنے نہ جانے کیوں سعودی عرب میں حجاج کرام کی رہائش کے کرایوں کی شرح کو پوشید ہ رکھا ہے پیپلز پارٹی دور میں جب سید خورشید شاہ وزیر مذہبی امور تھے رہائشی کرایہ تو کیا وہ پریس کانفرس میں حجاج کے لئے لی جانے والی عمارات کی فہرست بھی صحافیوں کو دے دیا کرتے تھے اصولی طور پر تو جب کبھی اس طرح کی پالیسوں کا اعلان کیا جاتا ہے تو پالیسی کی پوری تفصیلات سے عوام کا آگاہ کیا جانا ضروری ہوتا ہے کیونکہ ہمارے حجاج پہلے ہی رہائشی کرایوں کے بارے میں شاکی ہوتے ہیں ماضی میں بھی رہائشی انتظامات میں وسیع پیمانے پر بے قاعدگیاں ہوتی رہی ہیں جن کی پاداش میں ایک ڈائریکڑ جنرل اور دیگر افسران کو جیل بھیجا گیا تھا یہ اور بات ہے کہ بعد ازاں وہ عدالت سے بری ہو گئے لیکن جرم تو اپنی جگہ قائم رہا۔عازمین حج کے لئے رہائشی انتظامات میں اربوں روپے کے زرمبادلہ کا لین دین ہوتا ہے جو کوئی معمولی کام نہیںسعودی عرب میں عمارات کے لین دین کا معاملہ بڑا عجیب ہے بہت سے سعودی مالکان مکانات نے سعودی لوگوں کو ہی اپنا مستاجر مقرر کیا ہوتا جو عمارات کو کرایوں پر دیتے ہیں لیکن وہ بھی بہت کم ذاتی طور پر یہ کام کرتے ہیں بلکہ ان کے بھی ایجنٹ ہوتے ۔کسی دور میں ان ایجنٹوں کی زیادہ تر تعداد پاکستانیوں کی ہوا کرتی تھی لیکن آج کل یہ کام زیادہ تر بنگلہ دیش اور بھارت کے لوگوں نے سنبھال رکھا ہے جو کمیشن ایجنٹ کے طور پر کام کرتے ہیں۔جہاں تک کمیشن کا معاملہ ہے چونکہ عمارات کے کرایہ کی رقم کا چیک مالکان یا مستاجروں کے نام ہوتا ہے جو بعد میں کمیشن ایجنٹوں کو چیک کیش کرانے کے بعد ان کا حصہ دے دیتے ہیں لہذا آج تک کمیشن کے بارے میں ہونے والی کسی انکوائری میں کمیشن کو ثابت نہیں کیا جا سکا ۔البتہ چند سال قبل عزیزیہ میں جو عمارات حاصل کی گئی تھیں ان کے کرایوں کی شرح حد درجہ زیادہ ہونے کی وجہ سے مبینہ کرپشن کا شور غوغا ہوا تھا ورنہ کمیشن کا کام ہر سال چلتا رہتا ہے ۔ صرف شاہد خان ڈائریکٹر جنرل ایسے تھے جنہوں نے پاکستانی ایجنٹوں کا پاکستان ہاوس میں داخلہ بند کر رکھا تھا۔حج پالیسی کے دیگر نقات پر تبصرہ کرنے کی اس لئے ضرورت نہیں کیونکہ پالیسی میں ہرسال والی وہی پرانی باتوں کو ہی دہرایا گیا ہے پتہ چلا ہے کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں سرکاری اسکیم کے عازمین حج کا کرایہ رہائش گذشتہ سال سے زیادہ ہوگا سعودی حکومت نے تو ویزہ فیس اور انشورنس فیس بڑھا دی ہے لیکن پاکستانی وزارت مذہبی امور رہائشی کرایوں میں اضافہ کرنے میں بھی کسی سے پیچھے نہیں۔عزیزیہ میں عازمین حج کوجو رہائش دی جائے گی اس کا کرایہ 2600 ریال رکھا گیا ہے ہم یہ بات دعویٰ کر رہے ہیں کہ مسجد الحرام کے سامنے مسفلہ کا پل جو حرم شریف سے سات سو میٹر کی مسافت پر واقع ہے ذوالعقدہ کے پہلے 25 روز سات سو ریال میں رہائش مل جاتی ہے لیکن وزارت مذہبی امور حاجیوں کو مسجد الحرام سے کوسوں دور رہائش چھبیس سو ریال میں مہیا کرئے گی۔اسی طرح بارہ ذی الحج کے بعد اسی مسافت پر رہائش مزید سستی مل جاتی ہے مدینہ منورہ میں بھی کہا تو یہ جاتا ہے کہ سارے حاجیوں کو مرکزیہ میں رہائش دی جائے گی لیکن عین موقع پر انہیں رنگ روڈ سے باہر دور علاقوں میں ٹھہرادیا جاتا ہے بعد ازاں انہیں کرایوں کا ریفنڈ دے دیا جاتا ہے کیا انتظامات اسی طرح کے ہوتے ہیں کیا کسی دوسرے ملک کے انتظامات ایسے ہی ہوتے ہیںتاہم اس کام میں تب ہی کامیابی ہوسکتی ہے جب کوئی اخلاص سے اللہ تعالی کے مہمانوں کی خدمت کا حقیقی جذبہ رکھتا ہو۔نئی پالیسی میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں عازمین حج کی کل تعداد کا چالیس فیصد کوٹہ پرائیویٹ ٹور آپرٹیروں کو دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے بلکہ اس میں سے بھی دو فیصد نئے رجسٹرڈ ہونے والے ٹور آپرٹیروں کو دیا جائے گا حیرت طلب پہلو یہ ہے کہ وزارت مذہبی امور ہر سال نئے ٹور آپرٹیروں کو رجسٹرڈ کرتی چلی آرہی ہے حالانکہ اب یہ سلسلہ ختم ہو جانا چاہے ۔ اگر سپریم کورٹ نے چالیس فیصد کوٹہ پرائیویٹ گروپس لے جانے والوں کو دینے کا فیصلہ کیا تھا تو اصولی طور پر نجی گروپس کے کوٹہ میں سے کٹوتی نہیں کی جانی چاہیے بلکہ نئے ٹور آپرٹیروں کی رجسٹریشن بند ہونی چاہیے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کام بہت ہی نفع بخش ہے اور کوٹہ کے حصول میں بڑے بڑے نام ملوث ہیںلیکن ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب اس طرح کے لوگوں کا چہرہ سامنے آجائے گا۔سعودی حکومت برسوں سے کہتی چلی آرہی ہے کہ تمام عازمین حج کو پرائیویٹ گروپس میں بھیجا جائے جس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ نجی گروپس میں جانے والے عازمین حج بارہ روز میں حج کرنے کے بعد وطن واپس آجاتے ہیں ٹور آپرٹیروں نے اپنے اپنے پکیج اس طرح کے بنائے ہوئے ہیں کہ عازمین حج بہت کم وقت میں حج کرنے کے بعد واپس آسکتے ہیں۔اب تو بہت سے ٹور آپرٹیروں نے اپنے پکیج اس طرح کے بنائے ہوئے ہیں کہ وہ سرکاری اسکیم کے اخراجات کے قریب قریب ہیں۔ابھی بہت وقت ہے کہ حکومت پاکستان حج مشن میں بیٹھے افسران کو ہدایت کرئے کہ رہائشی کرایوں کی شرح کسی طور بڑھنی نہیں چاہیے اگر ایسا ہوا تو ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہو گی۔ گذشتہ ادوار میں ایک رہائشی کمیٹی بھی قائم کی جاتی تھی جو سعودی عر ب میں کم از کم پندروہ روز تک رہنے کے بعد رہائشی انتظامات کو مانٹیر کیا کرتی تھی لہذا ہم وزیراعظم عمران خان سے توقع کرتے ہیں کہ وہ بھی حاجیوں کے رہاشی انتظامات کا جائزہ لینے کے لئے ایک رہائشی کمیٹی بنا دیں جس میں ایوزیشن کے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی و سینٹ کو بھی شامل کیا جائے تاکہ حج انتظامات میں بہتری لائی جا سکے۔

مزیدخبریں