داغ دہلوی کے ہم عصر امیر مینائی کا شعر ہے، ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے /زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے ،یہ شعر آج مجھے قبرستان میںاپنے پیاروں کی قبروں پر حاضری کے دوران یاد آیا۔میں کچھ فاصلے پر اپنے عزیز واقربا کی قبروں پر فاتحہ خوانی کے پہنچا۔دل غمگین آنکھ اشکبار تھی لیکن اسکے ساتھ ساتھ میںیہ سوچ رہا تھا کہ شہر خموشاں میں جگہ کم پڑتی جارہی ہے۔ میں اپنی سوچ میں گم تھا کہ گورگن عابد شاہ اور ایک شخص کی آواز کانوں تک پہنچی،آوازیںبلند ہوتی جارہی تھیں، اس شخص کا شاید کوئی عزیز فوت ہوگیا تھا اور وہ گورگن سے قبر کی جگہ کے تعین اسکے بحث ومباحثہ کررہاتھا لیکن گورگن بضد تھا کہ بھائی کسی اور قبرستان کا رخ کرو، یہاں جگہ نہیںہے۔ میں بہت حیران ہوا۔ اکثر قبرستانوں میں یہ معمول بن چکا ہے کہ قبروں اسکے جگہ نہیں لیکن اگر آپ کا کوئی رشتہ دار دفن ہے تو ہم نئے مرنے والے اسکے اسی جگہ پر قبر کھود سکتے ہیں۔حفیظ ہوشیار پوری کاشعرہے ؎ سوئیں گے حشر تک کہ سبکدوش ہو گئے/بارِ امانتِ غم ہستی اُتار کے/قیس سہارنپوری نے بھی خوب منظر کشی کی /اے قیس میری قبر کسی کی عطا نہیں/دے کر متاعِ زیست ملا ہے یہ گھر مجھے موت، قبر اور اشعار کی زبان ایک طرف سچ یہ ہے کہ شہر میںموجود قبرستانوں میں جگہ واقعی کم ہوتی جارہی ہے،موت سے مفر ممکن نہیں،پیاروں کی تدفین بھی لازم وملزوم ہے لیکن شہر خموشاں ضروری ہے۔ اسی مناسبت سے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ قاسم خان نے پنجاب حکومت کو لاہور شہر کے چاروں کونوں پر پچاس ،پچاس ایکڑ کے قبرستان بنانے کا حکم دیا۔صوبائی دارالحکومت میں شہریوں اسکے اپنے پیاروں کی تدفین مشکل ہو گئی ہے بلکہ انھوں نے تو یہاں تک کہا کہ شہری کے مرنے پر ریاست کم از کم قبر تو کھود کر دے کبھی کسی ذمہ دار اور صاحب ِاختیار نے سوچا ہے کہ گھر پر میت پڑی ہے اور شہری پچیس سے تیس ہزار روپے کھدائی کی رقم اکٹھی کرنے اسکے لوگوں کے گھروں میں جا رہا ہے ۔ اگر اس مد میں بجٹ کی کمی ہے تو میں میانوالی اور ڈیرہ غازی خان کے تمام ترقیاتی پروجیکٹس پر کام روک دیتا ہوں۔ اپنے پیاروں کو قبرستان چھوڑ کر جانا شاید زندگی کا سب سے زیادہ سخت عمل شمار کیا جاتا ہے تاہم پاکستان کے بڑے شہروں میں میت کو گھر سے قبرستان تک پہنچانا اکثر اوقات زیادہ تکلیف دہ تجربہ ثابت ہوتا ہے۔میت کو غسل دینے کا انتظام، کفن و تابوت، قبر کی جگہ خریدنا اور پھر میت کو تیار کر کے جنازہ گاہ اور وہاں سے قبرستان تک اس کی ترسیل، سب کا بندوبست مرنے والے کے لواحقین کو سوگواری سے بھی شاید پہلے کرنا پڑتا ہے۔متوسط اور نچلے طبقے کے لوگ ان تمام مراحل سے متعلقہ اخراجات اور لوازمات کے معاملات میں سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ نجی سوسائٹیز میں تدفین اسکے تو من مانے پیسے وصول کئے ہی جاتے ہیں لیکن شہر کے سرکاری قبرستانوں کے حالات بھی کچھ اچھے نہیں رہے۔ حقیقت ہے کہ جگہ کی تنگی کے باعث قبروں کے اوپرقبریں بنتی جارہی ہیں، آج سے چالیس سے پہلے سات، آٹھ فٹ گہری قبرکھودی جاتی تھی جسے لحد کہتے تھے،آج صرف ڈھائی فٹ گہری قبر کھودی جاتی ہے۔ قارئین سینکڑوں مسائل اور درجنوں کرنٹ ایشو کی موجودگی میں قبرستان کو لاہور کا اہم اور سب سے بڑا مسئلہ بنانے کی وجہ پوچھ سکتے ہیں،لیکن کوئی نہیں پوچھے گا۔ لاہور کے اہم ترین علاقوں میں اللہ کو پیارے ہونے والوں کو لاہور میں قبر کی عدم دستیابی اور لاہور کے مختلف قبرستانوں میں خواری بھی کسی سے ڈھکی چھپی ہوئی نہیںہے۔ لاہور میں درجنوں علاقے اور سکیمیں ایسی ہیں جہاں قبرستان نہیں ہے، وہاں مرنا ایک آزمائش بن جاتا ہے، لواحقین کئی کئی گھنٹے خواری کے بعد مافیا کے ہاتھوں بلیک میل ہو کر میت اپنے اپنے گائوں بھیجنے پر مجبور ہوتے ہیں۔مرکزی اورصوبائی حکومت کا احسن اقدام اورعدالتی فیصلہ ناجائز تعمیرات اور زیر قبضہ زمین واگزار کروانا ہے۔بتذکرہ شہر خاموشاں یاد کرواتا چلوں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بھی اپنے دور حکومت میں،پنجاب گریو یارڈ آرڈیننس جاری کیا تھا،جس کے تحت پنجاب کے 4شہروں لاہور، فیصل آباد، ملتان اور سرگودھا میں ماڈل شہر خاموشاں بنانے کا اعلان کیا تھا۔جہاں سرد خانے سے لیکر غسل، جنازگاہ، تجہیز و تکفین،پارکنگ کا مکمل انتظام کیا گیا تھا۔پنجاب کے بیشتر شہر انکی تعمیراتی سیاست سے نا آشنا ہیں،ماڈل قبرستانوں کیلئے فنڈ کے استعمال کے ساتھ قدیم اور دیگر بڑے قبرستانوں کی حالت بہتر بنانے کی کوشش نہ کی گئی۔آج بھی قبرستانوں کے معاملات پنجاب گریو یارڈ تحفظ و بحالی ایکٹ 1958کے تحت ہی دیکھے جا رہے ہیں۔جس کے مطابق ٹرسٹ یا کمیٹی قبرستان کے انتظامات و معاملات دیکھتی ہے۔جبکہ حکومت قبرستانو ں کی حالت پر توجہ نہیں دیتی۔شہر پھیلتے گئے قبرستانوں میں گنجائش کم ہوتی گئی اور مسائل بڑھتے گئے، کسی حکومت نے اس مسئلے کو درخوراعتنا نہ سمجھا۔بقول شاعرکل ہاتھ سے ڈالی ہے تیری قبر پر مٹی/اور آج تیرے لوٹ کے آنے کا گماں ہے۔ ہر رشتے نے ٹوٹنا ہوتاہے کبھی زندگی کے ہاتھوں کبھی موت کے ہاتھوں۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ لاہور جیسے بڑے شہر میں قبرستانوں کی حالت زار نہایت خراب ہے۔ کسی حکومت کی توجہ بھی زندگی کے اس اہم موڑ کی طرف نہیں آتی کہ زندگی کے سفر کے اختتام کے بعد جہاں ابدی سکون کیلئے ہر انسان نے آنا ہے وہاں کی سہولت اور لواحقین کے اطمینان کیلئے کچھ کرے۔ باقی سب کچھ چھوڑیں نئے قبرستان تک بنانے میں کسی کو دلچسپی نہیں رہی۔ زندہ مفاد پرست لوگوں نے جنہیں مرنا یاد نہیں انہوں نے قبرستانوں کی اراضی پر قبضہ کرکے گھر تجارتی پلازے، سکول، دکانیں اور دفتر بنا لئے ہیں ۔
؎کہتا ہوں ایک بات بڑی مختصر سی ہے
جھک کر چلو حیات بڑی مختصر سی ہے۔