پاکستان کی سیاست میں جو زوال ہم دیکھتے آ رہے ہیں اس کے کئی پہلو ہیں۔ وہ دور بھی تھا جب یہاں کے سیاست دان پارٹی کے چندوں سے انتخاب لڑتے تھے۔ اس دور میں انتخابی عمل اتنا مہنگا نہیں تھا۔ ماضی کے کئی سیاسی لیڈروں سے سبھی بات ہوتی تھی تو وہ بتاتے تھے کہ ان کے الیکشن پر چند ہزار روپے کا خرچہ آیا ہے۔ پاکستانی سیاست کی ایک انتہائی قد آور شخصیت نوابزادہ نصر اللہ خان اپنے کئی انٹرویوز میں بتاتے رہے کہ انھوں نے اپنے آبائو اجداد کی زمینیں فروخت کر کے پیسہ الیکشن پر لگایا۔ قائداعظم کے ایک ساتھی اور مسلم لیگ کے سرکردہ رہنما سردار شوکت حیات جن کا تعلق واہ کینٹ سے تھا اور جو 70 کی دہائی میں اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ انھیں پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے اسمبلی کے پہلے سیشن کے دوران زد و کوب کیا تھا اور وہ جب اسمبلی کے اجلاس میں پہنچے تو انھوں نے سپیکر کے سامنے اپنی پھٹی ہوئی آستین لہرائی اور کہا کہ مجھے پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے اسمبلی کی طرف آتے ہوئے تشدد کا نشانہ بنایا۔ وہ اپنی آبائی زمینیں بیچ کر انتخاب لڑتے تھے، کئی دوسرے نامور سیاستدان بھی اپنے اثاثے بیچ کر الیکشن لڑتے رہے۔
افسوس ناک تبدیلی 1985 کے غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں آئی۔ ان انتخابات کا ملکی بڑی سیاسی جماعتوں نے بائیکاٹ کیا تھا۔ جو خلا پیدا ہوا اس کو پُر کرنے کیلئے غیر معروف اور سیاست کے میدان میں نو واردان کو موقع ملا اور کروڑوں روپے لگا کر اسمبلی میں پہنچ گئے۔ یہ وہ دور تھا جب ملک میں منشیات اور اسلحہ کی سمگلنگ کا پیسہ گردش کر رہا تھا۔ 1985 کے انتخابات میں جس طرح پیسہ انتخابی مہم میں بہایا گیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان خاموش تماشائی بنا رہا اور امیدوار کروڑوں روپے خرچ کرتے رہے۔ ان کیخلاف اس قانون شکنی پر کارروائی نہ ہوئی کہ وہ مقررہ حدود سے کہیں زیادہ بڑھ کر پیسہ خرچ کرتے رہے۔ اسی دور میں سینیٹ کے انتخابات میں بھی پیسہ چلنا شروع ہوا اور اس کے بعد تو یہ سلسلہ بڑھتا ہی گیا۔ ایک بزرگ مسلم لیگی رہنما نے نوے کی دہائی میں راقم کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا تھا کہ انھوں نے مسلم لیگ ن کی قیادت سے لاہور کی ایک نشست پر انتخاب لڑنے کیلئے ٹکٹ کی درخواست کی تو انھیں بتایا گیا کہ ان کے مد مقابل پی پی پی کا امیدوار انتہائی دولت مند ہے۔ وہ انتخابات پر پانی کی طرح پیسہ لگائے گا، کیا آپ کے پاس اتنا پیسہ ہے؟ تو مذکورہ شخصیت نے یہ کہہ کر الیکشن لڑنے سے معذرت کر لی کہ وہ اپنا کمایا ہوا پیسہ اس طرح نہیں ضائع کریں گے۔
بعد میں ہونیوالے تمام انتخابات مہنگے سے مہنگے ہوتے چلے گئے۔ بعض نشستوں پر تو دس سے پندرہ اور بیس کروڑ روپیہ لگائے جانے کی خبریں آنے لگیں۔ ان انتخابات میں عام آدمی کے ووٹ بھی خریدے جاتے رہے۔ لوگوں میں گھی، آٹا، چینی، چاول اور دوسری اشیائے خوردونوش بھی ووٹ کے عوض تقسیم کی جاتی رہیں لیکن اس سارے افسوسناک عمل کا الیکشن کمیشن نے نوٹس نہیں لیا اور یہ رجحان بڑھتا چلا گیا۔ اس کا ایک افسوس ناک نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کا دانشور، ہنر مند اور ملک کیلئے درد دل رکھنے والا طبقہ، جو سفید پوش تھا، انتخابی عمل سے باہر ہو گیا۔ ان کے پاس کروڑوں روپے الیکشن میں لگانے کیلئے نہیں تھے اس لئے وہ خاموش ہو کر بیٹھ گئے۔ ایک اور قابل افسوس نتیجہ یہ تھا کہ پڑھے لکھے لوگ اسمبلیوں میں نہ آ سکے، وہی لوگ اسمبلیوں میں آنے لگے جو سیاست کو سرمایہ کاری کا ایک ذریعہ سمجھتے تھے۔ یہ کہا جانے لگا کہ ایک قومی یا صوبائی اسمبلی کے جس رکن نے کروڑوں روپے الیکشن میں لگائے ہیں، وہ پہلے یہ خرچ پورا کرے گا اور اس کے بعد وہ اس نے دگنا اگلے الیکشن کیلئے کمائے گا۔
حال ہی میں سینیٹ کے انتخابات سے پہلے خیبر پختونخواہ کے ارکان اسمبلی کو ایک ویڈیو میں نوٹوں کی گڈیاں اٹھاتے دکھایا گیا ہے، اس سے یہ بات کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ کس طرح سینیٹ کے الیکشنز میں پیسہ چلتا ہے۔ نوے کی دہائی کے بعد سے سینیٹ کے انتخابات کے موقع پر ہمیشہ کروڑوں روپے سے ووٹ خریدنے کی خبریں چلتی رہی ہیں۔ خاص طور پر چھوٹے صوبوں اور فاٹا سے منتخب ہونے والے بے پناہ پیسہ لگا کر سینیٹ میں آتے ہیں۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں تھی، تمام ادارے اور سیاسی حلقے یہ جانتے تھے کہ سینیٹ کے انتخابات میں کس سینیٹر نے کتنا پیسہ لگایا ہے اور کن کن ارکان نے کتنے پیسے لئے۔ سب نے جان بوجھ کر اس پر خاموشی اختیار کی۔ اب اس ویڈیو کے سامنے آنے کے بعد بحث چل نکلی ہے کہ سینیٹ کے انتخابات کو اوپن بیلٹ کے ذریعے منعقد کیا جانا چاہیے تا کہ خفیہ ووٹنگ سے پیسوں کے لین دین کا سلسلہ رک سکے۔ اس وقت حکومت اور اپوزیشن کے اکابرین ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کر رہے ہیں اور ایک دوسرے پر پیسوں کے لین دین کا الزام لگا رہے ہیں۔ الزام تراشیاں کرنے کی بجائے ہمارے سیاسی رہنمائوں کو مل بیٹھ کر انتخابی نظام کو صاف اور شفاف بنانا چاہیے اور اس کیلئے اگر انھیں آئین میں ترمیم کرنا پڑے تو یہ ترمیم کر دینی چاہیے۔ بد قسمتی یہ ہے کہ کچھ سالوں سے ہماری سیاست اس حد تک دھڑے بندی ،کھینچا تانی اور ذاتی مفادات کی سیاست بن چکی ہے کہ سیاسی نظام کو خرابیاں سے پاک کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔ پاکستان کے لوگوں کی تو خواہش یہ ہے کہ سیاست کو پیسے سے پاک کیا جائے۔ سیاست کو کاروبار نہ بنایا جائے بلکہ ایک عبادت اور مشن کا درجہ دیا جائے تا کہ وہ لوگ بھی سیاست میں فعال کردار ادا کر سکیں جن کے پاس پیسے تو نہیں لیکن ملک کے بارے میں سوچنے کیلئے دماغ اور ایک درد مند دل موجود ہے۔ ایسے لوگ پاکستان کی خدمت کیلئے آنا چاہتے ہیں لیکن ان کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ پیسے کی کمی ہے۔ اگر ہمارے سیاسی اکابرین بیٹھ کر پیسے کو سیاست سے نکال دیں تو ان کا قوم پر یہ بڑا احسان ہو گا مگر لگتا نہیں کہ ایسا ہو گا کیونکہ سیاست کو اب کاروبار بنا دیا گیا ہے۔ ’’سیاست میں لگائو اور کھل کر لگائو‘‘ کا رجحان عام ہے۔ جتنا جلدی اس سے نجات حاصل کی جائے، اتنا سیاست اور پاکستان کے لوگوں کیلئے بہتر ہے۔
الیکشن اور پیسہ
Feb 14, 2021